1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مشن: کابل حکومت کی جرمنی کو یقینی دہائی

6 فروری 2011

افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی فورسز ایک سال کے دوران آئی سیف کے دستوں سے سکیورٹی ذمہ داریاں لینے کے قابل ہو جائیں گی۔ انہوں نے یہ بات ہفتہ کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات میں کہی۔

انگیلا میرکل افغان صدر کے ساتھتصویر: dapd

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ہفتہ کو جرمنی میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے افغان مشن پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

حامد کرزئی نے جرمن چانسلر کو یقین دلایا کہ افغان فورسز ایک سال میں نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس سے سکیورٹی ذمے داریاں لینے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے جنگ سے متاثرہ اپنے ملک میں بحالی کے کاموں کے لیے مزید سرمایہ کاری کا مدعا بھی اٹھایا۔

خیال رہے کہ افغانستان میں جرمنی کے تقریباﹰ پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ یوں جرمنی افغان مشن کے لیے فوجی فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہاں امریکہ نے سب سے زیادہ فوج تعینات کر رکھی ہے جبکہ برطانیہ کا نمبر دوسرا ہے۔ افغانستان میں تعینات غیرملک فوجیوں کی تعداد تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ ہے۔ جرمن عوام میں افغان مشن کی مخالفت پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب نیٹو حکام نے ہفتہ کو بتایا کہ افغانستان میں تشدد کے تازہ واقعات میں انیس طالبان شدت پسند اور نیٹو کے دو فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ آئی سیف کے مطابق اس کے دو فوجی دو علیٰحدہ واقعات میں ہلاک ہوئے۔

جرمنی افغانستان میں فوجی فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہےتصویر: AP

تاہم نیٹو نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ واقعات کہاں پیش آئے، نہ ہی ہلاک ہونے والی فوجیوں کی قومیتیں بتائی گئی ہیں۔

اُدھر افغان صوبے نگرہار کے پولیس سربراہ علی شاہ پکتیاوال نے بتایا ہے کہ جمعہ کی شب افغان اور نیٹو فورسز کے ایک مشترکہ آپریشن میں پندرہ طالبان مارے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’یہ کارروائی طالبان کے شدت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے کی گئی۔‘

وہاں افغان اور نیٹو فورسز نے لال پور ضلع میں طالبان کے ایک گروہ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پندرہ شدت پسند مارے گئے۔ جمعہ کی شب ہی افغانستان کے شمالی علاقوں میں نیٹو کی علیٰحدہ علیٰحدہ کارروائیوں میں مزید چار طالبان مارے گئے۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں