پاکستان کی جانب سے قریب دو ملین افغان مہاجرین کو ایک ماہ کے اندر وطن واپس بھیجنے کے اچانک فیصلے پر اِن پناہ گزینوں کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ افغان حکومت نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
ایک بیان کے مطابق پاکستان کی کابینہ نے رواں ہفتے افغان مہاجرین کو تیس دن کے اندر ملک سے نکال دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ مہاجرین کے عالمی ادارے یو ان ایچ سی آر اور اسلام آباد میں افغان ایمبیسی کے لیے اچانک اور چونکا دینے والا تھا۔
یو این اچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق،’’ ہمیں اس فیصلے پر تحفظات ہیں۔‘‘
عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے ایک اعشاریہ چار ملین افغان مہاجرین کی پاکستان سے ملک واپسی کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ ان پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر نے سن انیس سو اُناسی میں سوویت روس کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد پاکستان مہاجرت کی تھی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں مقیم متعدد افغان مہاجرین نے سرکاری طور پر اپنے قیام کا اندراج نہیں کروایاو جس کا مطلب یہ ہیں کہ یہ تعداد دو ملین کے تخمینے سے کہیں زیادہ ہے۔
اسلام آباد میں مقیم ایک افغان سفارت کار زردشت شمس نے آن لائن پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کے اس فیصلے پر تحفظات ہیں اور افغان حکام اس مسئلے پر اسلام آباد سے بات کریں گے۔
دوسری جانب یہ امر بھی اہم ہے کہ امریکا نے پاکستان کی عسکری امداد روکنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو امداد کی بحالی مبینہ طور پر پاکستان کی سر زمین سے کارروائیاں کرنے والے افغان طالبان کے خلاف موثر ایکشن سے مشروط کی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان سے رضاکارانہ طور پر 425000 سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین پچھلے چند برسوں اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔ دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر قانونی طور پر پاکستان ميں مقیم افغان مہاجرین کے اندراج بھی کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی حکومت کا یہ فیصلہ بہ ظاہر امریکا اور بین الاقوامی برداری کی جانب سے پاکستان پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس اقدامات کے دباؤ کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔
پاکستانی حکومت نے اب سے قبل بھی متعدد بار افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے اعلانات کیے ہیں۔ یہ اعلانات کبھی تو امریکی حکومت کے دباؤ کے ردعمل میں اور کبھی ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے تناظر میں کیے گئے۔ تاہم ان فیصلوں پر کبھی مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔