افغان مہاجرین روس میں ہونے والے مذاکرات سے پر امید
فریداللہ خان، پشاور
6 فروری 2019
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ڈھائی ملین افغانوں نے روس میں جاری مذاکرات کے بارے میں ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ نوجوان ان مذاکرات کو قیام امن کے لیے نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستان میں رہائش پذیر افغان نوجوانوں کا موقف ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 17 سال سے موجود حکومتیں قیام امن اور افغانستان کی تعمیر نو میں ناکام رہی ہیں، یہاں تک کہ دیگر ممالک میں پناہ گزین کو بھی اپنے ملک واپس لانے کے لیے موثر اقدامات نہ کر سکیں۔ دوسری جانب سینیئر افغانوں باشندوں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کی صورت میں افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات موجود ہیں اور روس میں ہونے والے مذاکرات کے لیے حکومتی گروپ کو نظر انداز کرنے سے اس بات چیت اور مذاکرات کی کامیابی کے امکان کم ہی نظر آتے۔
خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان باشندے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مقیم رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان شہری مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اب تک لاکھوں باشندے واپس افغانستان جا چکے ہیں لیکن وہاں موجود بدامنی کی وجہ سے یہاں مقیم لاکھوں افغان واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے جب پشاور میں ایک معروف افغان کاروباری شخصیت عبدالرحمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد خود بھی کہتے ہیں کہ یہ ابتدائی مرحلہ ہے تو میری نظر میں ان مذاکرات سے زیادہ توقعات اس لیے وابستہ نہیں کرنی چاہیے کہ ایک بڑے گروپ (حکومت)کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ خلیل زاد کی طرح افغان حکومت بھی ان مذاکرات سے مطمئن نہیں۔ حکومتی گروپ میں بھی وار لارڈز موجود ہیں انہیں نظر انداز کرنے سے افغانستان میں قیام امن کے امکانات کم نظر اتے ہیں۔‘‘
عبدالرحمان کا مزید کہنا تھا،’’جن عالمی قوتوں کے مفادات افغانستان میں ہیں وہ ایسے ہی گروپوں کو سپورٹ کرنے کے لیے متحرک ہوسکتے ہیں اوراس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک بار پھر افغانستان میں جنگ جو گروپ متحرک ہوں۔ افغانستان میں امن کے آثار تب سامنے ائیں گے جب فریقین جنگ بندی کا اعلان کریں۔ ایک جانب امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری ہیں تو دوسری جانب ایک دوسرے پر حملے کیے جارہے ہیں۔‘‘
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
7 تصاویر1 | 7
پشاور میں کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں مقیم افغان نوجوان ان مذاکرات سے انتہائی پُر امید نظر آتے ہیں۔ پشاور کی افغان مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے ایک نوجوان احمد علی کا کہنا ہے، ’’پہلی بار امریکا اس بات پر رضا مند ہوا ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد فوج نکالنے کے لیے تیار ہے اور افغانستان میں متحرک مضبوط قوتوں کا یہ مطالبہ رہا ہے تو ایسے میں ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں ان بات چیت اور مذاکرات کے نتیجے میں امن قائم ہوگا۔‘‘
پشاور میں بڑی تعداد میں افغان نوجوان زیر تعلیم ہیں ان میں دشت نگری میں رہائش پذیر دولت خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مذاکرات سے لگتا ہے کہ 17 سالہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ افغان جنگ سے تنگ آ چکے ہیں، ہم بھی اس انتظار میں ہیں کہ اپنے ملک جائیں اور اپنی پڑھائی مکمل کر کے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو لوگ اس وقت اقتدار میں ہیں انہیں ان افغانوں کی مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے مذاکرات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانوں کی کئی نسلیں اس چار دہائیوں کی جنگ میں تباہ ہوچکی ہیں اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی قوتیں افغانستان میں قیام امن کے لیے مؤثر کوشش کرے۔ ان مذاکرات کی تسلسل سے ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں امن آئے گا۔‘‘
’افغانستان ميں حالات بہتر ہوں گے تو واپس چلا جاؤں گا‘
01:33
پاکستان میں مقیم زیادہ تر افغان تجارت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن ہوجائے تو کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہم اپنا کاروبار فوری طور پر افغانستان شفٹ کریں گے۔ ڈوئچے ویلے نے افغان امور کے ماہر گوہر علی خان سے روس میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’چار دہائیوں سے طاقتور قوتیں افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اس میں نقصان افغانستان اور افغانوں کا ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ افغانوں نے خود مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا اور ہمسایہ ممالک نے انہیں سپورٹ کرنا ہوگا۔ پورے وسط ایشیا کے امن کا دار ومدار افغانستان میں قیام امن پر ہے۔ روس میں ہونے والے مذاکرات فریقین اگر کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں تو ان معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈر (ہمسایہ ممالک) کی ایک کمیٹی بنانا ہوگی۔ ان ممالک میں امریکا، پاکستان، ایران، چین اور دیگر ممالک شامل ہوں تاکہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔‘‘
’پاکستان اچھا لگتا ہے، لیکن ہمیں یہاں رہنے نہیں دے رہے‘