پاکستانی حکام نے ملک میں مقیم دو اعشاریہ پانچ ملین افغان مہاجرین کی وطن واپس لوٹنے کی حتمی تاریخ میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی ہے۔ اسلام آباد حکومت پہلے بھی متعد بار دی گئی ڈیڈ لائن کو منسوخ کر چکی ہے۔
اشتہار
پاکستانی حکومت ماضی میں بھی افغان مہاجرین کی ملک بدری کی تاریخوں کا اعلان کرتی رہی ہے۔ لیکن ان فیصلوں پر آج تک عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں تازہ ترین ڈیڈ لائن رواں ماہ کی تیس تاریخ تھی جس میں ایک بار پھر توسیع کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا،’’ وفاقی کابینہ نے افغان پناہ گزینوں کی پاکستان میں رہنے کی مدت میں جون 2019 تک توسیع کر دی ہے۔‘‘
چوہدری فواد کا مزید کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی اپنے ملک واپسی کی اگلی حتمی تاریخ سے قبل حکومت ان کے حوالے سے ایک جامع پالیسی تشکیل دینا چاہتی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ اُن کی حکومت ایسے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے گی جو یہیں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ تاہم انفارمیشن منسٹر چوہدری نے اس حوالے سے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ پیشکش ابھی بھی قائم ہے۔
چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو اعشاریہ پانچ ملین افغان پناہ گزین مقیم ہیں جن میں سے قریب نصف ملین افراد غیر رجسٹرڈ ہیں۔
افغان حکام اور عالمی ادارہ مہاجرت جنگ زدہ ملک افغانستان میں پاکستان سے پناہ گزینوں کو واپس بھیجے جانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں کئی دہائیوں سے قیام پذیر افغان مہاجرین کو اس وقت سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے جب رواں برس کے آغاز میں پاکستانی کابینہ نے تمام افغان مہاجرین کو ملک چھوڑ دینے کا کہا تھا۔ اس مقصد کے لیے جنوری کے آخر تک کا وقت دیا گیا تھا تاہم بعد میں اس ڈیڈ لائن میں مارچ کے آخر تک کی توسیع کر دی گئی تھی۔ بعد ازاں یہ ڈیڈ لائن تیس ستمبر تک بڑھا دی گئی جس میں اب دوبارہ جون 2019 تک توسیع کر دی گئی ہے۔
ص ح / ع ا/ نیوز ایجنسی
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔