ان دنوں يونان اور ترکی کی سرحد پر ہزاروں تارکين وطن موجود ہيں جن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ يورپ ميں داخل ہو سکيں۔ ان ميں شامی مہاجرين کی تعداد بہت کم جبکہ افغان شہريوں کی تعداد بہت زيادہ ہے۔
اشتہار
ترکی اور يونان کی سرحد پر يورپ ميں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکين وطن ميں شامی شہريوں کی تعداد کم اور افغان باشندوں کی تعداد بہت زيادہ ہے، جس کی دو وجوہات ہيں۔ ايک تو يہ کہ جو شامی پناہ گزين پچھلے چند برسوں سے ترکی ميں مقيم ہيں، اگر وہ غير قانونی انداز سے يورپ ہجرت کرتے ہيں تو ان کا کافی کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ اس کے برعکس ايران، پاکستان اور خاص طور پر افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کا ايسے کرنے سے کچھ نہيں جاتا۔ شامی شہری عموماً اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہيں۔ جبکہ ترکی ميں پھنسے ہوئے افغان مہاجرين کی اکثريت تنہا سفر کرنے والے نوجوان مرد ہيں، جو بس وہاں سے نکلنا چاہتے ہيں۔
مہاجرين کے بحران ميں تازہ ترين صورتحال اس بحران کے ايک اور پہلو کی نشاندہی کرتی ہے۔ ترکی ميں صرف شامی شہريوں ہی نے پناہ نہيں لے رکھی بلکہ يہ ملک، ديگر کئی ملکوں کے تارکين وطن کے ليے ايک 'ٹرانزٹ اسٹيشن‘ کی حيثيت بھی رکھتا ہے۔ يعنی ترکی ميں کئی ايسے تارکين وطن ہيں، جو کبھی وہاں رہنا چاہتے ہی نہيں تھے اور ان کی حتمی منزل ہميشہ ہی سے صرف يورپ ہی ہے۔
اندازوں کے مطابق ترکی ميں اس وقت رجسرڈ اور غير رجسٹرڈ مہاجرين کی مجموعی تعداد پانچ ملين کے لگ بھگ ہے۔ يہ ترکی کی آبادی کے چھ فيصد کے برابر ہے۔ دنيا ميں چند ہی ايسے ممالک ہيں جہاں مقامی آبادی کے مقابلے ميں مہاجرين کا تناسب اس قدر زيادہ ہے۔ ترکی ميں رجسٹرڈ شامی پناہ گزينوں کی تعداد 3.6 ملين ہے جبکہ دوسرا سب سے بڑا گروپ افغان مہاجرين کا ہے۔ وہاں قيام پذير افغان تارکين وطن کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تيسرے نمبر پر ايرانی شہری ہيں، جن کی تعداد قريب بيس ہزار بنتی ہے۔
دنيا بھر ميں کہاں کہاں مہاجرين کے بحران جاری ہيں؟
اس وقت دنيا بھر ميں بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد تاريخ ميں اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔ اس تصويری گيلری ميں آپ جان سکتے ہيں کہ اس وقت کن کن ممالک کو مہاجرين کے بحرانوں کا سامنا ہے۔
رواں سال مئی کے اواخر ميں افريقی ملک برونڈی کے پناہ گزينوں کی تعداد 424,470 تھی۔ ان مہاجرين ميں سے تقريباً ستاون فيصد نے تنزانيہ ميں جبکہ بقيہ نے يوگينڈا، کانگو اور روانڈا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ برونڈی ميں اقتصادی بد حالی، کھانے پينے کی اشياء کی قلت و بيمارياں وسيع پيمانے پر فرار کا سبب بن رہی ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے برونڈی کے مہاجرين کے ليے اس سال 391 ملين امريکی ڈالر کی امداد کی اپيل کر رکھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Kasamani
کانگو
مئی کے اختتام پر افريقہ ميں صحارا ريگستان کے نيچے واقع ممالک ميں پناہ ليے ہوئے کانگو کے مہاجرين کی مجموعی تعداد 735,000 تھی۔ کانگو کے مختلف علاقوں ميں مسلح تنازعات جاری ہيں اور اس ملک کو درپيش مہاجرين کے بحران کو انتہائی پيچيدہ تصور کيا جاتا ہے۔ سن 2017 سے اب تک اس ملک کے ملين افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور اس کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرين نے کانگو ميں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
عراق
عراق ميں جاری مسلح تنازعے کے سبب سن 2014 سے اب تک اس ملک کے تين ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق 2.1 ملين عراقی شہری اس وقت بے گھر ہيں اور اپنے ملک کے اندر ہی پناہ گاہوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ 260,000 عراقی تارکين وطن پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت بھی کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily
روہنگيا مہاجرين
پچيس اگست سن 2017 سے لے کر رواں سال مئی کے اواخر تک پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد 713,000 ہے۔ روہنگيا مسلمان، ميانمار ميں ايک اقليتی گروپ ہيں جن کے پاس کسی ملک کی شہريت نہيں۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد رپورٹوں ميں ميانمار کی فوج کے روہنگيا کے خلاف اقدامات کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں اس وقت 13.1 ملين افراد کو ہنگامی بنيادوں پر مدد درکار ہے۔ اس ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 6.6 ملين ہے جبکہ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک ساڑھے پانچ ملين شامی باشندے پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
وسطی افريقی جمہوريہ
وسطی افريقی جمہوريہ دنيا کے غريب ترين ممالک ميں سے ايک ہے۔ اس وقت ديگر ملکوں ميں پناہ کے ليے موجود اس ملک کے پناہ گزينوں کی تعداد 582,000 ہے جبکہ اپنے ہی ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 687,398 ہے۔ وہاں غربت کے علاوہ متصادم مسلح گروہوں اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے سبب مقامی لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہيں۔
تصویر: Imago/alimdi
يورپ
يورپ ميں سمندری راستوں سے اس سال اب تک 32,601 مہاجرين پہنچ چکے ہيں جبکہ بحيرہ روم کے راستے پناہ کے سفر ميں 649 ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2017ء ميں172,301 مہاجرين، 2016ء ميں 362,753، سن 2015 ميں 1,015,078 اور سن 2014 ميں 216,054 مہاجرين يورپ پہنچے۔ ان مہاجرين کا تعلق مشرق وسطی، افريقہ، مشرقی يورپ اور ايشيا سے ہے۔
تصویر: imago/Anan Sesa
يمن
يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف سعودی قيادت ميں عسکری اتحاد کی کارروائی کے سبب اب تک 192,352 افراد پڑوسی ملکوں ميں پناہ لے چکے ہيں۔ مشرق وسطی کے غريب ملکوں ميں سے ايک يمن ميں غربت اور عدم استحکام کے علاوہ مسلح تنازعہ لوگوں کے فرار کا سبب بنا۔ اس وقت اس ملک ميں موجود بائيس ملين سے زائد افراد کو انسانی بنيادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/A. Stahl
نائجيريا
اس افريقی ملک ميں دہشت گرد تنظيم بوکو حرام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں دو لاکھ سے زائد شہری ہجرت کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں ہی بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد اس وقت 1.7 ملين بنتی ہے۔ نائجر، چاڈ اور کيمرون ميں بھی بوکو حرام کی وجہ سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔
تصویر: imago/epd/A. Staeritz
جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان ميں سن 2013 سے جاری خونريز مسلح تنازعے کے سبب اس ملک کے 2.4 ملين شہری پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں ميں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Forrest
پاکستان
افغانستان اور روس اور امريکا کی جنگ کے دور سے پاکستان ميں لاکھوں افغان پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد قريب 1.4 ملين ہے۔ ان مہاجرين کی ديکھ بھال کے علاوہ انہيں اتنی طويل مدت تک کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی محدود وسائل والے ملک پاکستان کے ليے ايک چيلنج ثابت ہوا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
11 تصاویر1 | 11
ترک حکام کے ليے 'غير ضروری‘ افغان باشندوں سے نمٹنا ہوا کے رخ کے خلاف کام کرنے کے مساوی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال غير قانونی طريقے سے ترکی ميں داخل ہونے والے دو لاکھ افغان شہريوں کو ملک بدر کيا گيا۔
ترکی اور شام کی سرحد کے اکثريتی حصے پر اب ايک ديوار کھڑی ہے۔ پچھلے چند ماہ سے ترکی نے ايران سے ملنے والی سرحد پر بھی پوليس کی نفری بڑھا دی ہے۔ افغانستان، پاکستان اور ايران کے تارکين وطن اسی راستے سے ترکی ميں داخل ہوتے ہيں۔ يہ پہاڑی علاقہ ہے اور اس کی نگرانی بھی ايک مشکل کام ہے۔
افغان شہری ترکی کو ايک ٹرانزٹ ملک يا عارضی قیام گاہ کے طور پر ديکھتے ہيں۔ ترکی ميں موجود شامی شہريوں کہ نہ صرف انقرہ حکومت سے مدد ملتی ہے بلکہ يورپی يوين اور کئی بين الاقوامی ادارے بھی اس سلسلے ميں متحرک ہيں۔ اس کے برعکس ديگر ملکوں کے تارکين وطن کسی قسم کی مدد کے مستحق نہيں اور انہيں اپنی ديکھ بھال خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ ترکی ميں سياسی پناہ بھی صرف شامی اور عراقی شہريوں کو دی جاتی ہے۔ افغان باشندوں کے ليے وہاں کسی قسم کی کوئی مدد نہيں۔ یہ افغان پناہ گزین وہاں ملازمت نہییں کر سکتے ہيں اور نہ ہی قانونی طور پر رہائش حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ دستاويزات کے بغير صحت اور تعليم کی سہوليات بھی انہيں ميسر نہيں۔ حد سے حد انہيں ترکی ميں عارضی پناہ مل جاتی ہے، جس سے وہ چند نجی تنظيموں سے مدد لے سکتے ہيں۔
يہی وجہ ہے کہ افغان شہريوں کے ليے ترکی ميں کچھ نہيں۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ وہاں موجود بیشتر افغان شہری رہنا بھی نہيں چاہتے۔ اسی ليے جب ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے حال ہی ميں اعلان کيا کہ يورپ جانے کے خواہشمند افراد کو روکا نہيں جائے گا تو افغان تارکين وطن نے اسے ایک نادر موقع کے طور پر لیا۔ ليکن ان کے لیے اگلا ايک اور کٹھن مرحلہ يونان ميں داخلے کا ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔