افغان مہاجرین کا ایک اور گروپ جرمنی بدر کر دیا گیا
صائمہ حیدر
21 فروری 2018
افغان حکام کے مطابق جرمنی بدر کیا جانے والا چودہ افغان مہاجرین کا ایک گروپ بدھ اکیس فروری کی صبح کابل پہنچ گیا ہے۔ ان افغان باشندوں میں چھ افراد مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
اشتہار
ایک افغان عہدیدار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ جرمنی بدر ہوئے ان افغان مہاجرین کو میونخ سے لانے والا جہاز آج صبح دس بج کر پچاس منٹ پر کابل پہنچا۔
افغان عہدیدار کے بیان کے مطابق وطن واپس آنے والے ان افراد میں چھ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ تین مہاجرین ایسے تھے جنہوں نے اپنی درست شناخت بتانے سے انکار کیا تھا جبکہ ایک مہاجر نے بتایا تھا کہ وہ جرمنی مہاجرت سے قبل افغانستان میں سنگین نوعیت کے جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔
دسمبر سن دو ہزار سولہ سے لے کر اب تک افغان مہاجرین کی یہ دسویں جرمنی بدری ہے۔ سن 2016 اکتوبر ہی میں اس حوالے سے کابل اور برلن حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ تشکیل پایا تھا۔
تب سے اب تک ایک سو اٹھاسی مہاجرین کو جرمنی سے واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔
واپس آنے والوں میں زیادہ تر مہاجرین نوجوان افغان باشندے ہیں۔
گزشتہ برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے کے سامنے ہونے والے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے میں بانوے افراد ہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد سے جرمن حکومت نے افغانستان واپس بھیجے جانے والے پناہ گزینوں کو درج ذیل تین گروپوں تک محدود کر دیا ہے:
1) ایسے افراد جن پر سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔
2) وہ افغان مہاجرین جو اپنی درست شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیں۔
3) مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افغان پناہ گزین۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت کو افغان مہاجرین کو ملک بدر نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کی رائے میں افغانستان میں سلامتی کی صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے اور طالبان عام شہریوں، سیکیورٹی فورسز اور حکومتی عہدیداروں کو دہشت گردانہ حملوں میں زیادہ تیزی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔