1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کو فی الحال واپس بھیجنا ممکن نہیں، یورپی یونین

19 اگست 2021

یورپی یونین نے کہا ہے کہ افغانستان میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد ان کے ملک ہی میں یقینی بنائے جائے گی۔ یونین نے افغانستان کو ایک غیر محفوظ ملک بھی قرار دے دیا۔

Serbien Flüchtlingsunterkunft in Belgrad
تصویر: DW/D. Cupolo

یورپی یونین کی داخلہ امور کی کمشنر اِلوا ژوہانسن نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ افغانستان کے حالیہ حالات کے تناظر میں سرِدست یہ ممکن نہیں کہ وہاں کے مہاجرین کو واپس بھیجا جائے کیونکہ یہ ملک فی الحال محفوظ نہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کو مدد فراہم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

جرمنی، افغان مہاجرین کی سیاسی پناہوں کی درخواستوں کی منظوری میں اضافہ

 افغانستان کے اندر بے گھر افراد کی مدد

امریکی اور دوسری غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد طالبان نے اب پوری طرح دارالحکومت کابل پر اپنا تسلط قائم کر دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بے گھری کا سامنا ہو سکتا ہے۔

افغانستان کو اس وقت داخلی مہاجرین میں اضافے کا بھی سامنا ہےتصویر: privat

اس تناظر میں یورپی یونین کی داخلہ امور کی کمشنر  ژوہانسن کا کہنا ہے کہ ایسے بے گھر افراد کی افغانستان ہی میں مناسب مدد کی جائے تا کہ وہ دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ خطے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ وہ ملک افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کر سکیں۔

جرمنی سن 2015 کی مہاجرین کی پالیسی نہیں دہرائے گا، سی ڈی یو

یورپ سے افغان مہاجرین کی واپسی درست نہیں

یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی ویڈیو کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اِلوا ژوہانسن کا کہنا تھا کہ بیرونی سرحدوں پر کھڑے مدد کے منتظر افراد کو مزید انتظار مت کرائیں اور ان کی مدد سے ان کے خطرات کو کم کرنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ انہیں یونین کی ریاستوں میں دوبارہ آباد کرنے کا موقع دیا جائے۔

یہ امر اہم ہے کہ یورپی ریاستوں میں پناہ لینے کی سب سے زیادہ درخواستیں مشرقِ وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام کے بے گھر افراد کی ہیں اور اس کے بعد افغانستان دوسرا ملک ہے، جس کے مہاجرین نے سیاسی پناہ یا بین الاقوامی تحفظ کے حصول کی درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں۔ سن 2015 کے بعد سے اب تک پانچ لاکھ ستر ہزار افغان شہریوں نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

پناہ کے متلاشی افغان مہاجرین کی درخواستوں میں اضافہ

رواں برس فروری کے بعد سے افغان مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن نے عدم استحکام کے شکار ملک افغانستان سے رواں برس گیارہ ستمبر تک اپنے سارے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کیا تھا۔

ایک افغان تارک وطن عتیق اللہ اکبری جرمنی سے ملک بدری کے وقت واپس روانہ ہوتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

امریکی صدر کے اعلان کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی اپنی رکن ریاستوں کے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کر دیا۔ مئی میں پونے پانچ ہزار کے قریب درخواستیں افغان مہاجرین کی جانب سے جمع کرائی گئی اور اس کا قوی امکان ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے نصف سے زیادہ کو سیاسی پناہ دے دی جائے گی۔

یونان افغان مہاجرین کو اپنی سرحد سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا

ڈی پورٹیشن سینٹر کی تجویز

آسٹریا کے وزیر داخلہ کارل نیہمیر نے تجویز کیا کہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں میں واپس بھیجے جانے والے افغان مہاجرین کے ڈیپورٹیشن سینٹرز تعمیر کرائے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون کی حکمرانی کو بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ متشدد اور مجرمانہ رویے کے حامل مہاجرین کو ڈی پورٹ کیا جائے۔ نیہمیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ یونین کی ریاستوں کا مشترکہ مقصد بھی ہے کہ مہاجرین کو ان کے اپنے علاقوں تک محدود رکھا جائے۔

 ع ح  ا ا (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں