بلغاریہ کے حکام نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے 53 افغان مہاجرین کو واپس یونان روانہ کیا جائے گا۔ صوفیہ حکومت کے مطابق کسی کو غیر قانونی طور پر ملکی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بلغاریہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹھائیس مئی بروز ہفتہ یونان سے بلغاریہ میں داخل ہونے والے ترپّن افغان مہاجرین کو واپس روانہ کیا جائے گا۔
یہ افغان مہاجرین ایک کارگو ٹرین میں چھپ کر یونان سے بلغاریہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن بعدازاں انہیں پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔
صوفیہ حکومت کے مطابق ان مہاجرین کو ملک بدر کرنا دراصل دیگر مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے ایک سخت پیغام ہو گا کہ وہ کبھی بھی ایسا راستہ اختیار کرتے ہوئے بلغاریہ میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔
یونان میں موجود مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح وسطی یا شمالی یورپی ممالک تک رسائی حاصل کرلیں۔ یونان سے متصل مقدونیہ نے بھی ان مہاجرین کی آمد کو روکنے کی خاطر سخت انتظامات کر رکھے ہیں۔
بلغاریہ اور یونان کے مابین سرحدیں پانچ سو کلو میٹر طویل ہیں۔ بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مقدونیہ یا بلغاریہ سے ہوتے ہوئے آگے دیگر یورپی ممالک پہنچ جائیں۔
یونان کی طرف سے ایڈومینی کا مہاجر کیمپ بند کر دیے جانے کے بعد اب صوفیہ حکومت کو ایسے خدشات لاحق ہو گئے ہیں کہ اب مہاجرین بلغاریہ میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے پناہ گزين
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر تين کلوميٹر طويل باڑ لگانے کا کام مکمل کر ليا ہے۔ اس دوران وہاں پھنسے مہاجرين کے درميان کشيدگی بڑھ رہی ہے، جس پر قابو پانے کے ليے غير سرکاری تنظيموں نے حکومت سے مدد کا مطالبہ کيا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
يونانی علاقے ميں بے يار و مددگار
مقدونيہ کی سرحد پر پاکستانی پناہ گزين حسن اور محمد صغير خود کو گرم رکھنے کے ليے کوڑے کے ڈھير کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مقدونيہ، سربيا اور سلووينيا کی جانب سے ’محفوظ‘ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو روکنے کے فيصلے کے بعد سے يہ دونوں بھائی يونانی علاقے اڈومينی ميں پھنس گئے ہيں۔ بلقان خطے کے چند ملکوں کے حاليہ اقدام کے نتيجے ميں اس مقام پر ڈيڑھ تا دو ہزار مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سخت سردی ميں کھلے آسمان تلے
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے تعاون سے اس مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کے ليے تين بڑے خيمے کھڑے کر ديے گئے ہيں، جن ميں گرم رکھنے کا انتظام بھی ہے۔ تاہم ادارے کے اڈومينی ميں فيلڈ کوآرڈينيٹر انتونس ريگاس کے بقول اب بھی ايک ہزار کے لگ بھگ مہاجرين رات کے وقت چھ ڈگری درجہ حرارت ميں کھلے آسمان تلے سو رہے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مدد اور تعاون کا فقدان
مراکش سے تعلق رکھنے والا ايک نوجوان سرحد کھلنے کا منتظر ہے تاہم ريگاس کے بقول اس کے امکانات کافی کم ہی ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہم درخواست کر رہے ہيں کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تين نمائندے يہاں بھيجے جائيں جو کيمپ چلانے ميں مدد کر سکيں۔ يہاں کے مکمل انتظامات کی نگران اب غير سرکاری تنظيميں ہی ہيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ذمہ داری نہيں کہ وہ حکومت کا کام سر انجام دے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہريت کی بنياد پر تقسيم
اس وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں شامی، عراقی اور افغان شہری يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہو رہے ہيں جبکہ پيچھے رہ جانے والے الجھن کا شکار ہيں۔ بتيس سالہ بنگلہ ديشی دکاندار شيامال رابی کہتا ہے کہ وہ غير قانونی طور پر يورپ جانے کا خواہشمند نہيں۔ اس کا مزيد کہنا ہے، ’’ہم بھی انسان ہيں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہيں۔ اگر تين ملکوں کے لوگوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے، تو ہميں بھی يہ اجازت ملنی چاہيے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
پناہ گزينوں کے درميان کشيدگی بڑھتی ہوئی
مشکل حالات اکثر اوقات غصے کو جنم ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کيمپوں ميں مہاجرين کے مختلف گروپوں کے مابين لڑائی جھگڑے کے مناظر معمول کی بات ہيں۔ نيپالی باشندے راج کا کہنا ہے کہ ايک ايرانی نے اس کے منہ پر مکا مارا تھا۔ گزشتہ جمعے کے روز ايک غير ساکاری تنظيم کے ڈاکٹروں نے دو شمالی افريقی پناہ گزيوں کے زخموں پر پٹی باندھی، جنہيں چاقو کے وار سے يہ زخم آئے تھے۔ کھانے کے تقسيم کے وقت سے اکثر جھگڑے ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
احتجاج جو کبھی پر امن تھا، پر تشدد ہوتے ہوئے
گزشتہ ہفتے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے مہاجرين نے سوئی دھاگے کی مدد سے احتجاجاً اپنے منہہ سی ڈالے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ تاہم يہ مظاہرے پر امن کچھ ہی وقت کے ليے رہے اور پھر جمعرات اور ہفتے کے روز مہاجرين کی حکام کے ساتھ جھڑپيں رپورٹ کی گئيں۔ ايک امدادی کارکن کے بقول پناہ گزين کافی برہم ہيں۔ کئی مہاجرين شراب نوشی بھی کرنے لگے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی حالت
UNHCR سے وابستہ اليگزاندروس وولگارس کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تيس ہی منٹ ميں حالات تبديل ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کسی چيز کی منصوبہ بندی نہيں کر سکتے، يہ ہنگامی صورتحال ہے اور ہماری کوشش صرف يہی ہے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘ وولگارس کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزينوں سے گزارش کر رہے ہيں کہ وہ يونانی دارالحکومت جائيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کا حصہ بنيں‘
بائيس سالہ يمنی پناہ گزين رامی التھاری اپنے فون پر صناء ميں تباہ کاريوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ وہ ديگر گيارہ يمنی پناہ گزينوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جنہيں حوثی باغيوں کی صفوں ميں شامل ہونے پر مجبور کيا گيا تھا۔ ’’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کريں ليکن ہم نہيں لڑيں گے۔ ہميں ورنہ سعودی مار ديں گے۔ اسی ليے جب تک سرحد نہيں کھلتی، ہم يہيں انتظار کريں گے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ايک اور الميہ
ايک يونانی ورکرز يونين کے ارکان نے ہفتے کے روز يہاں مختلف چيزيں تقسيم کيں۔ يونين کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر اس مقام پر جلد ہی مسائل کا حل تلاش نہ کيا جا سکا، تو يہ اگلا Calais ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ميسر سہوليات ناکافی ہيں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ مہاجرين اپنے مقاصد کے حصول کے ليے متبادل راستے تلاش کريں گے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اسمگلر بھی کافی چالاک ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’پلان بی‘ کيا ہے؟
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اتوار کی دن مکمل کر ليا ہے۔ يونان ميں Medecins du Monde کے صدر نيکيتاس کناکس کے بقول اس مقام پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے ليے دنيا بھر سے لوگ موجود ہيں ليکن يونانی حکومت کا کوئی نمائندہ نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں ميں سرحد مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ اگر ہم سب کو ايتھنز منتقل کر بھی ديتے ہيں، تو پھر کيا ہو گا؟‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
بلغاریہ کی وزارت داخلہ سے وابستہ گیورگی کاستوف نے اتوار کے دن روئٹرز کو بتایا کہ یونان سے بلغاریہ میں داخل ہونے والے تمام افغان مہاجرین کی ابتدائی رجسٹریشن یونان میں ہوئی تھی، اس لیے انہیں واپس یونان روانہ کیا جائے گا۔
کاستوف نے مزید کہا کہ ان افغان مہاجرین سے قبل جمعے کی رات دیگر چونتیس مہاجرین بھی یونان سے بلغاریہ داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے، جنہیں سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا۔ ’’ان مہاجرین کو واپس یونان روانہ کرنا دراصل مستقبل میں ایسے لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ یہ راستہ استعمال مت کریں۔‘‘
صوفیہ حکومت کے مطابق یونان سے متصل سرحدوں پر تعینات بارڈر سکیورٹی فورسز کے تعاون کے لیے فوجی دستے روانہ کیے جائیں گے تاکہ وہ ملک میں غیر قانونی مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کر سکیں۔
بلغاریہ کے وزیر اعظم بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر ضرورت پیش آئی تو ان کا ملک بھی یونان سے ملحق اپنی سرحدی گزرگاہوں پر حفاظتی رکاوٹیں نصب کر سکتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد صرف یہی ہو گا کہ مہاجرین اور تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔