افغان مہاجرین کو وطن واپس جانا ہوگا، جرمن وزیر داخلہ
28 اکتوبر 2015تھوماس ڈے میزیئر کا بدھ کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’’اس ماہ، اور امسال بھی، یہ دیکھا گیا ہے کہ افغانستان سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ بات قبول نہیں کی جا سکتی۔ ہم افغان حکومت کو بتا چکے ہیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے۔‘‘
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ علاقوں، بالخصوص شام اور عراق سے، مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ کر رہی ہے، جس سے اس براعظم میں بحران کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ شام اور عراق کے علاوہ افغانستان سے بھی مہاجرین یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ جنوبی یورپی ممالک، اسپین، یونان اور اٹلی ان تارکین وطن کی پہلی منزل ضرور ہوتے ہیں، تاہم یہ مشرقی یورپ سے گزر کر شمالی اور مغربی یورپی ممالک کو اپنی منزل بنا رہے ہیں۔ بہت سے پاکستانی بھی ملک چھوڑ کر یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
جرمنی اور یورپی یونین کا شامی اور عراقی مہاجرین کی طرف رویہ مخلصانہ ہے۔ ان ممالک کے عوام کو شدت پسند اسلامی تنظیم داعش کی بربریت کا سامنا ہے۔ شام میں صدر بشار الاسد کی افواج بھی مبینہ طور پر شہریوں پر بم باری کر رہی ہیں۔ یہاں سے آنے والے افراد کا کیس یورپی یونین کی نظروں میں خالص ہے۔ افغانستان کی صورت حال بھی دگرگوں ہے، تاہم جرمنی اور یورپی یونین کا خیال ہے کہ وہاں حالات اتنے بھی خراب نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں وہاں سے آنے والوں کو یورپ میں پناہ دی جائے۔ جرمن حکومت کہہ چکی ہے کہ مہاجرین کے کیسز کو دیکھا جائے گا اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کون یورپ میں پناہ کے قابل ہے اور کون نہیں۔
جرمن وزیر داخلہ نے بیان اسی تناظر میں دیا ہے۔ ’’افغانستان کے عوام کو یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ وہ یہاں رہ پائیں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کو افغانوں کے کیسز کو انفرادی سطح پر دیکھا جائے گا اور اس کے بعد حکومت اس بارے میں کوئی فیصلہ دے گی۔
پاکستان سے ہجرت کر کے یورپ آنے والوں کے لیے بھی یہ ایک مثال کی طرح ہے۔