’افغان مہاجرین کی باوقار وطن واپسی کا وقت آ گیا ہے‘
شمشیر حیدر
18 فروری 2018
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے کیمپوں کو بھرتیوں اور دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستانی فوج کے سربراہ نے یہ بات جرمن شہر میونخ میں جاری تین روزہ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کے خطاب کا موضوع ’خلافت کے بعد جہاد ازم‘ تھا۔
جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ عوام کو شدت پسندی کی جانب راغب کرنے کے لیے جہاد کو استعمال کرنا کوئی نیا مظہر نہیں ہے اور نہ ہی یہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد شروع ہوا۔ انہوں نے سن اسی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’یہ عفریت اس وقت لبرل آزاد دنیا نے پیدا کی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے چالیس برس قبل بویا تھا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سن 2003 میں افغانستان میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں عراق جنگ میں پیش از وقت وسائل جھونک دینے کے باعث ضائع ہو گئیں۔
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
6 تصاویر1 | 6
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوجی کارروائیوں کی مدد سے نہیں جیتی جا سکتی۔ دہشت گردی کے خلاف ’نیشنل ایکشن پلان‘ اور 'آپریشن رد الفساد‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
میونخ میں اپنے خطاب کے دوران جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان خود مختار ریاستیں ہیں اور امن اور ترقی دونوں ممالک کا حق ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کے کیمپوں کے حوالے سے جنرل باجوہ نے کہا کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ مہاجرین باوقار طریقے سے وطن واپس لوٹ جائیں۔ ’’صرف اسی طرح ہم یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری میزبانی کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری سرزمین کو افغانستان میں کسی فساد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘‘
علاوہ ازیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد کی کڑی نگرانی کی بھی ضرورت ہے۔ جنرل باجوہ کے مطابق پاکستان نے اس ضمن میں اپنے طور پر تئیس سو کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ نصب کرنا شروع کر رکھی ہے۔ تاہم جنرل باجوہ کے مطابق، ’’عام افغان شہریوں کی سہولت اور دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کے لے سرحدی چوکیوں پر بائیومیٹرک نظام اور اسکینر بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق دسمبر 2017ء تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 258 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
۱۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 کے اواخر تک قریب ایک کروڑ ستر لاکھ (17 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
۲۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو ایک کروڑ تیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی نوے فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
۳۔ روس
تیسرے نمبر پر روس ہے جس کے ایک ملین سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2017 تک ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد چوالیس لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
۵۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے تیار کردہ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچہتر لاکھ سے زائد بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔
تصویر: DW
۶۔ شام
خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے قریب ستر لاکھ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں چھبیسویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
۷۔ پاکستان
ساٹھ لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
۸۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے اختتام تک 5.9 ملین یوکرائینی شہری بیرون ملک آباد ہیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
۹۔ فلپائن
ستاون لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائینی شہریوں کی تعداد تیس لاکھ تھی۔ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائینی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
۱۰۔ برطانیہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں برطانیہ دسویں نمبر پر ہے جس کے قریب پچاس لاکھ شہری دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 8.8 ملین بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Nichols
۱۱۔ افغانستان
آخر میں پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اڑتالیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری وطن سے باہر مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک بائیس لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔