افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ، سہ فریقی مذاکرات
30 جون 2016پاکستانی دفتر خارجہ نے آج جمعرات کو بتایا کہ وہ فوری طور پر کابل انتظامیہ سے سیاسی اور سفارتی سطح پر رابطہ کرتے ہوئے مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس بیان کے مطابق اس دوران ہونے والی بات چیت میں کوشش کی جائے گی کہ ایک ایسا حل تلاش کیا جائے، جس کے ذریعے افغان مہاجرین پاکستان سے آسان انداز میں اور بغیر پیچیدگیوں کے واپس جا سکیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق، ’’ ایسے امکان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے ان مہاجرین کی افغانستان کے محفوظ اور پرامن علاقوں میں بتدریج واپسی ممکن ہو سکے۔ ایسے علاقوں میں کابل حکومت کو مراکز قائم کرنے چاہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان سے رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں انتہائی کم ہو گئی ہے۔ عالمی ادارے نے بتایا کہ اس کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں ہیں، جن کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ افغان وزیر برائے مہاجرین اور وطن واپسی حسین علیمی بلخی کا اس تناظر میں کہنا تھا، ’’ ہمیں علم ہے کہ افغان مہاجرین کو خوف اور دھمکیوں کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہے اور ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں‘‘۔ اس بیان میں انہوں نے تصدیق کی اس مقصد کے لیے اسلام آباد، کابل اور اقوام متحدہ کے نمائندے انیس جولائی کو ملاقات کر رہے ہیں۔
ابھی گزشتہ روز ہی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے پندرہ لاکھ افغان مہاجرین کے پاکستان میں رہائش کے اجازت ناموں میں چھ ماہ کی توسیع کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ایک مقامی ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے چھ ماہ کی توسیع کا فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا میں رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد سامنے آیا، جس میں پانچ سو افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔ کسی ملک میں پناہ گزینوں کی بات کی جائے تو اس فہرست میں پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد پندرہ لاکھ ہے جبکہ غیر اندارج شدہ تقریباً دس لاکھ افغان شہری پاکستان میں رہ رہے ہیں۔