افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
عاطف توقیر
30 مارچ 2018
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی حکومت ملک میں موجود افغان مہاجرین کو واپس افغان بھیجنے سے متعلق ڈیڈ لائن تبدیل کر رہی ہے اور اب یہ افغان مہاجرین مزید تین ماہ تک پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں۔
اشتہار
جمعے کے روز ایک پاکستانی حکومتی عہدیدار نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ملک میں موجود دو ملین سے زائد افغان مہاجرین کی افغانستان واپس جانے کے لیے دی گئی ڈیڈلائن میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان مہاجرین کو ’ہر حال میں افغانستان‘ واپس جانے سے متعلق ڈیڈلائن بڑھا کر اب 31 جون کر دی گئی ہے۔
پشاور میں ’کارخانو مارکیٹ‘ کے افغان دکاندار پریشان کیوں؟
پاکستان میں کئی عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی اکثریت خیبر پختون خوا صوبے میں مقیم ہے جو اپنی گزر بسر کے لیے کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ان مہاجرین کو خدشہ ہے کہ اگر انہیں وطن واپس بھیجا گیا تو وہاں گزارا کیسے ہو گا۔
تصویر: DW/F. Khan
کاروبار پر پابندی نہیں
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
سرمایہ ڈوب جائے گا
پشاور میں رہنے والے افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہاں کاروبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر انہیں واپس وطن بھیجا جاتا ہے تو ایک تو اُن کا سرمایہ ڈوب جائے گا دوسرے افغانستان میں بزنس کے لیے حالات ساز گار بھی نہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
کپڑوں کا کاروبار
پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان مہاجرین کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
بناؤ سنگھار کی چیزیں
کپڑوں کے بزنس کے علاوہ پشاور کے رہائشی مہاجرین خواتین کے بناؤ سنگھار کی اشیاء بھی بیچتے ہیں۔ اب جبکہ ملکی وفاقی کابینہ کے فیصلے کی رُو سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں دو دن باقی رہ گئے ہیں، یہ مہاجرین مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
فٹ پاتھ پر دوکان
پشاور کے بورڈ بازار اور کارخانو مارکیٹ میں افغان مہاجرین نے نہ صرف بڑی دکانیں ڈال رکھی ہیں بلکہ زیادہ سرمایہ نہ رکھنے والوں نے فٹ پاتھ پر بھی اپنا سامانِ فروخت سجایا ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. Khan
شادی کا سامان
ہت سے افغان باشندے سرحد پار کر کے شادی بیاہ کے کپڑوں اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے بھی پشاور کی کارخانو مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/F. Khan
پولیس سے نالاں
فٹ پاتھ پر اپنی دکان سجانے والے کئی دکانداروں کو شکایت ہے کہ پولیس انہیں تنگ کرتی ہے۔
مہاجرین کے امور سے متعلقہ پاکستانی وزارت کے مطابق یہ افغان مہاجرین اب مزید تین ماہ پاکستان میں قیام کر سکتے ہیں، جب کہ اس دوران ان مہاجرین کو افغانستان بھیجنے سے متعلق عمل کو مزید پختہ بنایا جائے گا۔ رواں برس وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں موجود تمام افغان مہاجرین کو ہر حال میں افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ اس سلسلے میں مارچ کے اختتام کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی تھی۔
افغان حکام اور اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین UNHCR نے اس ڈیڈلائن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہاجرین کو جنگ زدہ علاقوں میں واپس بھیجنا ان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اس وقت ایک اعشاریہ چار ملین افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے عمل کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ یہ افغان مہاجرین سن 1979ء میں افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد پاکستان آئے تھے اور اب تک یہیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر افغان مہاجرین کو جون کے اختتام تک رکھی گئی ڈیڈلائن کے بعد جبری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان اس سے قبل بھی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے متعلق اعلانات کرتا رہا ہے، تاہم ان فیصلوں اور اعلانات پر کبھی عمل نہیں کیا جا سکا۔ اس نئی ڈیڈلائن سے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا اتنی قلیل مدت میں افغانستان بھیجا جانا قابل عمل دکھائی نہیں دیتا۔