افغان مہاجرین کے لیے تعلیمی دروازے بھی بند ہوتے ہوئے
29 جولائی 2016افغان مہاجرین کی واپسی کی وجہ سے ستمبر میں یہ تعلیمی ادارے کھل جانے کے بعد ان میں بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ دوسری جانب حکام نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبا و طالبات کے لئے مختص کوٹہ بھی ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت پشاور میں ڈھائی سو تعلیمی ادارے ہیں، جن میں کئی ایک افغان کمشنریٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور انہیں باقائدہ حکومتی تعاون حاصل ہے تاہم ایک بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں، جن میں زیر تعلیم طلبا غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک بڑی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں تاہم جب ان کے مستقبل کے بارے میں ڈائریکٹر ایجوکیشن خیبر پختونخوا رفیق خٹک سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’ہم اسکولوں میں آنے والے بچوں کو بھی اپنے ہی بچے سمجھتے ہیں۔ انہیں بلا رنگ و نسل، مذہب اور قومیت کے تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے۔ ہمارا کام بچوں کو تعلیم دینا ہے تاکہ وہ معاشرے کے لئے ایک اچھے انسان بنیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘
وفاقی حکومت نے حال ہی میں افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی ہے تاہم یہ بھی واضح کیا ہے کہ آئندہ برس یکم جنوری سے رجسٹرڈ مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا جائےگا اور اس میں مزید توسیع نہیں کی جائیگی۔ وفاقی وزیر سیفران قادر بلوچ کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ ملین رجسٹرڈ جبکہ ایک ملین غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ملک بھر میں افغان مہاجرین کے چون کیمپ ہیں، تیس فیصد مہاجرین ان کیمپوں جبکہ ستر فیصد کیمپوں سے باہر رہتے ہیں۔
دارالحکومت پشاور میں بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں، جہاں یہ لوگ دیگر کاروبار کر رہے ہیں۔ پشاور میں افغان مہاجرین نے نجی تعلیم ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔ پشاور کے حیات آباد ، بورڈ بازار، افغان کالونی، فقیر آباد، دلہ زاک روڈ اور کئی دیگر علاقوں میں سینکڑوں نجی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے، جو کسی بھی پاکستانی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف صوبائی حکومت کے آپریشن کی وجہ سے ان میں سے بھی کئی ادارے بند ہو چکے ہیں جبکہ زیادہ تر تعلیمی اداروں نے کارروائی کے خوف سے اپنے سائن بورڈز بھی اتار دیے ہیں۔ بورڈ بازار کی ایک کمپیوٹر اکیڈمی کے طالب علم عاطف نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اب ڈرتے ہوئے اکیڈمی آتے ہیں، پولیس ہمیں تنگ کرتی ہے، جب سے انہوں نے سرچ آپریشن شروع کیا ہے، دن میں کئی بار روک کر پوچھتے ہیں۔ تاہم جب ہم بتاتے ہیں کہ ہم اسٹوڈنٹس ہیں تو پھر کچھ نہیں کہتے۔ کئی لوگ تعلیم چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں۔‘‘
پشاور پولیس نے گزشتہ چھ ماہ سے غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے اور اب تک ڈھائی ہزار سے زیادہ غیر قانونی افغان باشندوں کو حراست میں لے کر سرحد عبور کروائی گئی ہے۔
جب ان نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے پشاور کے اسٹنٹ کمشنر الطاف شیخ سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ’’زیادہ تر نجی اسکول کسی بھی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر نجی تعلیمی اداروں کے لئے کوئی پالیسی ہے۔ ان میں پڑھنے والے بچے اگر رجسٹرڈ ہیں تو انہیں تنگ نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور انہیں کچھ نہیں کہا جاتا، جہاں تک کیمپوں میں افغان اسکولوں کا تعلق ہے تو جب افغان مہاجرین واپس جائیں گے تو کیمپ بھی ختم کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ہی یہ اسکول بھی ختم ہوں گے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق پشاور میں کئی افغان طالب علم میڈکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کے لیے فوری طور پر تعلیم کا سلسلہ ختم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ دوسری جانب کئی ایسے طالب علم بھی ہیں جو پاکستانی نیشنلیٹی کے لئے درخواست دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرسکیں۔