1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغان مہاجرین، یادیں جو تعاقب کرتی ہیں

21 جون 2023

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک سے فرار ہونے والے سینکڑوں افغان باشندے بدستور مشکلات سے لڑ رہے ہیں۔

Albanien Ankunft von afghanischen Staatbürger in Tirana
تصویر: Albania Ministry of Foreign Affairs

دو برس قبل فیروز ماشوف افغانستان سے فرار ہوئے تھے، مگر اب تک کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد انہوں  اپنا گھر بار چھوڑنا یاد ہے۔ ان کے مطابق شہر گولیاں کی آوازوں سے گونج رہا تھا، جب وہ ایک بس کے ذریعے کابل کے ہوائی اڈے پہنچے تھے اور وہاں سے ایک جہاز میں سوار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

کے پی پولیس پر امریکی، نیٹو کے ہتھیاروں سے حملوں کی تحقیقات

نیٹو کے ہتھیار کشمیری عسکریت پسندوں تک کیسے پہنچ رہے ہیں؟

انہوں نے کہا، ''جب قطر ایئرویز کے جہاز نے پرواز کی، تو اس وقت میں نے کابل کے اردگرد کی پہاڑیوں اور وہاں ڈوبتے سورج کا منظر دیکھا۔‘‘

آج اپنے وطن سے ہزاروں میل دور فوٹوجرنسلسٹ اور افغان فٹ بال فیڈریشن کے سابقہ ملازم ماشوف البانیہ میں ہیں اور بے چینی سے امریکی ویزے کے اجرا کے منتظر ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی امیدیں کم زور ہوتی جا رہے ہیں اور ان کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں۔

ایسے ہزاروں افغان باشندے جو بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہیں اور کچھ ایسے بھی ہی جو البانیہ میں ہی کوئی کام تلاش کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ لمبی کاغذی کارروائی کے باوجود ایک روز وہ امریکہ پہنچ کر ایک نئی زندگی شروع کر پائیں گے۔

البانیہ کے دارالحکومت تیران سے ستر کلومیٹر دور واقع قصبے شینگجن میں سینکڑوں افغان باشندے موجود ہیں جو عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں ماشوف بھی انہیں میں شامل ہیں جنہیں  بس کی ایک گھنٹے کی مسافت پر نوکری ملی ہے۔

ماشوف کو یہ سوچ کر بھی وحشت ہونے لگتی ہے کہ اسے بھلایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس کا خاندان ابھی تک ہیرات ہی میں مقیم ہے۔ ماشوف کو امید تھی کہ وہ امریکہ پہنچ کر اپنے اہل خانہ کو محفوظ بنا پائے گا۔ ماشوف کہتے ہیں، ''مجھے بچایا گیا تھا۔ مجھے امریکہ میں ایک نئی زندگی شروع کرنا ہے۔ مگر کب؟‘‘

افغان امن عمل: پاکستان کے لیے چیلنجز

06:05

This browser does not support the video element.

طالبان نے اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ دو دہائیوں تک افغانستان پر امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت قائم رہی تاہم غیرملکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی یہ حکومت ختم ہو گئی۔

طالبان کی جانب سے اعتدال پسندی کے ابتدائی دعوؤں کے برخلاف وہاں سخت ترین شریعہ قوانین کا استعمال عمل میں آ چکا ہے اور افغانستان میں لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم کے حصول کے حق سے محروم کردیا گیا۔

ع ت/ ک م (اے پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں