افغان مہاجر کی خودکشی کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، زیہوفر
شمشیر حیدر روئٹرز، اضافی رپورٹنگ وصلت حسرت نظامی
12 جولائی 2018
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ جرمنی سے ملک بدر کیے گئے افغان تارک وطن کی کابل میں خودکشی کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ خودکشی کرنے والے تئیس سالہ افغان تارک وطن کو گزشتہ ہفتے ملک بدر کیا گیا تھا۔
اشتہار
تئیس سالہ افغان تارک وطن کی خودکشی کے بعد جرمن وزیر داخلہ ہرسٹ زیہوفر پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں اس نوجوان تارک وطن کی موت کا الزام وزیر داخلہ پر عائد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
زیہوفر یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی سمٹ میں شرکت کے لیے آسٹرین شہر اِنسبروک میں موجود ہیں۔ انہوں نے خود پر کی جانے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان افغان تارک وطن کی خودکشی کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خودکشی کرنے والے افغان تارک وطن کو جرمن شہر ہیمبرگ کی مقامی انتظامیہ نے ملک بدری کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
نوجوان افغان شہری کی ملک بدری اور بعدازاں خودکشی کے بارے میں زیہوفر نے کہا، ’’سارا عمل انتہائی افسوس ناک ہے۔ لیکن آپ کو ہیمبرگ کے حکام سے پوچھنا چاہیے کہ اسے ملک بدری کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا تھا۔‘‘
آسٹریا میں نیوز کانفرنس کے دوران زیہوفر سے ان کی انہترویں سالگرہ کی مناسبت سے انہتر افغان تارکین وطن کی ملک بدری والے بیان کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس حوالے سے کوئی بھی بیان دینے سے انکار کر دیا کہ وہ جو بھی کہیں گے اسے ’غلط رنگ‘ دیا جائے گا۔
خودکشی کرنے والا افغان مہاجر کون تھا؟
کابل حکام نے جرمنی سے وطن واپس بھیجے گئے تئیس سالہ افغان شہری کی خودکشی کی تصدیق تو کی ہے تاہم اس کی شناخت کے حوالے سے مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں۔ یہ افغان تارک وطن ملک بدری سے قبل آٹھ برس تک جرمنی میں مقیم رہا تھا۔
جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدریاں: کب، کتنے، کس قیمت پر؟
گزشتہ برس جرمنی سے بائیس ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے قریب نو ہزار کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔ ان میں کتنے پاکستانی تھے اور انہیں کب اور کس قیمت پر ملک بدر کیا گیا؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
26 جنوری 2017
اس دن جرمن شہر ہینوور کے ہوائی اڈے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سات پاکستانی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھیجا گیا۔ اس فلائٹ میں چوبیس جرمن اہلکار بھی پاکستانی تارکین وطن کے ہمراہ تھے اور پرواز پر قریب سینتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
7 مارچ 2017
ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس روز خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی ملک بدر ہوئے۔ ان کے ہمراہ وفاقی جرمن پولیس اور دیگر وفاقی اداروں کے اٹھائیس اہلکار بھی تھے جب کہ ملک بدری کے لیے اس فلائٹ کا خرچہ پینتالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: Imago/epd
29 مارچ 2017
یونانی حکومت کے زیر انتظام ملک بدری کی یہ خصوصی پرواز بھی ہینوور ہی سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے پانچ پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس پرواز میں اٹھارہ جرمن اہلکار بھی سوار تھے اور فلائٹ کا خرچہ ساڑھے بیالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
25 اپریل 2017
اس روز بھی خصوصی پرواز ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے تین پاکستانی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا گیا۔ ان تارکین وطن کے ساتھ وفاقی جرمن پولیس کے گیارہ اہلکار بھی پاکستان گئے اور پرواز پر خرچہ اڑتیس ہزار یورو آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger
7 جون 2017
جرمن دارالحکومت برلن کے شونے فیلڈ ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔ پرواز میں 37 جرمن اہلکار بھی موجود تھے اور خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
19 جولائی 2017
تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کی اس خصوصی پرواز کا انتظام بھی ایتھنز حکومت نے کیا تھا اور اس کے ذریعے نو پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ہینوور ہی سے اکیس اہلکاروں اور نو تارکین وطن کو پاکستان لے جانے والی اس فلائٹ پر برلن حکومت کے ساڑھے سینتیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
5 ستمبر 2017
آسٹرین حکومت کے زیر انتظام یہ پرواز ہینوور کے ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی شہری کو وطن واپس لے گئی جس کے ہمراہ چار جرمن اہلکار بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow
20 ستمبر 2017
اسی ماہ کی بیس تاریخ کو ہینوور ہی سے ایک خصوصی پرواز گیارہ تارکین وطن کو واپس پاکستان لے گئی اور ان کے ہمراہ بیس جرمن اہلکار بھی تھے۔ اس پرواز کے لیے جرمن حکومت نے ساڑھے سینتیس ہزار یور خرچ کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
7 نومبر 2017
اس روز بھی آسٹرین حکومت کے زیر انتظام ایک خصوصی پرواز میں جرمن شہر ہینوور سے پانچ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ بیس جرمن اہلکار بھی ان کے ساتھ تھے اور پرواز پر خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Balk
6 دسمبر 2017
برلن سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے 22 پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ وفاقی جرمن پولیس کے 83 اہلکار انہیں پاکستان تک پہنچانے گئے۔ پرواز کا انتظام برلن حکومت نے کیا تھا جس پر ڈیڑھ لاکھ یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
10 تصاویر1 | 10
تاہم یہ بات یقینی ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے جرمنی سے ملک بدر کیے گئے 69 افغان تارکین میں سے ایک تھا۔ ڈی ڈبلیو نے اس نوجوان کے ساتھ ملک بدر کیے گئے دو افغان مہاجرین سے بھی گفتگو کی۔ میر واعظ ہاشمی اور عبدالعزیز سلطانی بھی کابل واپسی کے بعد اسی ہوٹل میں مقیم تھے جہاں مذکورہ تارک وطن نے خودکشی کی تھی۔
سلطانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اسے واقعی بہت سے مسائل درپیش تھے اور وہ انہیں برداشت نہیں کر پایا۔ اس نے ہوٹل کے ملازموں کو بھی کہا تھا کہ وہ اسے پریشان نہ کریں اور پھر بعد میں اس نے پھندا لگا کر کمرے ہی میں خودکشی کر لی۔‘‘ ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی خودکشی کے بارے میں کسی کو بروقت معلوم نہیں ہوا، ’’ہمیں اس وقت پتا چلا جب ہوٹل میں بُو آنے لگی۔ بعد ازاں پولیس اہلکار آئے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔‘‘
جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کو بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) وطن واپسی کے بعد کابل میں عارضی طور پر رہائش فراہم کرتا ہے۔ خودکشی کرنے والا افغان نوجوان بھی آئی او ایم کی جانب سے فراہم کردہ ہوٹل کے کمرے میں عارضی طور پر رہائش پذیر تھا۔
مہاجرین کی مدد کرنے والی جرمن غیر سرکاری تنظیم پرو ازول نے افغان مہاجرین کی جرمنی سے ملک بدری پر تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ بات اہانت آمیز ہے کہ جرمنی میں کئی برسوں سے مقیم افغان تارکین وطن کو بھی ملک بدر کر کے کابل حکومت کے حوالے کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب کابل حکومت پہلے ہی ایران اور پاکستان سے بڑی تعداد میں وطن واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔‘‘
پرو ازول کے مطابق افغانستان واپس بھیجے گئے انہتر تارکین وطن میں سے اکاون جرمن صوبہ باویریا سے ملک بدر کیے گئے تھے۔ ہورسٹ زیہوفر اس صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور اب بھی ان کی جماعت سی ایس یو اس صوبے میں برسراقتدار ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔