1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان ورکرز اور پناہ گزين تہران حکومت سے نالاں

3 دسمبر 2012

افغانستان اور ايران محض پڑوسی ملک ہی نہيں بلکہ دونوں کے درميان تاريخی اور ثقافتی تعلقات بھی قائم ہيں۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے ايران ميں بسنے والے افغان پناہ گزينوں کو متعدد سختيوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان ميں جاری بين الاقوامی مشن ميں امريکا کی شموليت، علاقائی مفادات اور مغربی پابنديوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے اقتصادی مسائل وہ اہم ممکنہ وجوہات ہيں، جن کی بناء پر تہران انتظاميہ کی جانب سے ملک ميں مقيم افغان پناہ گزينوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے۔

رواں سال مئی ميں تہران حکومت نے يہ دھمکی دی تھی کہ اگر کابل انتظاميہ واشنگٹن کے ساتھ سکيورٹی کے ايک معاہدے پر دستخط کرتی ہے، جس پر بعد ميں کابل نے دستخط کر بھی ديے تھے، تو ايران اپنے ملک ميں بسنے والے افغان ورکرز اور پناہ گزينوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ اس وقت ايران ميں مجموعی طور پر 2.4 ملين افغان شہری اور پناہ گزين مقيم تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہينوں ميں مجموعی طور پر ايک لاکھ اکيانوے ہزار سے زائد غير رجسٹرڈ مہاجرين کو واپس افغانستان بھيجا جا چکا ہے۔ يہ تعداد گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے ميں انتيس فيصد زيادہ ہے۔ اب بھی قريب 1.4 ملين افغان مہاجرين ملازمتوں کی غرض سے ايران ميں مقيم ہيں۔ اگرچہ ان میں سے کئی ایک کو افغانستان واپس بھيجنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم قريب پانچ لاکھ پناہ گزينوں کو اب بھی ايران ميں رہنے کی اجازت ہے۔

اب بھی قريب 1.4 ملين افغان مہاجرين ايران ميں ہيںتصویر: AP

اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان پناہ گزينوں کے ڈپٹی وزير عبدالاصمد حامی نے کہا، ’افغان ورکرز اور پناہ گزين تہران اور واشنگٹن کے درميان کھيلے جانے والے سياسی کھيل کا نشانہ بن رہے ہيں‘۔ افغان سياستدانوں اور سياسی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے ذريعے ايران يہ دکھانا چاہتا ہے کہ اگر خطے ميں معاملات اُس کی مرضی کے مطابق نہ چلائے گئے، تو وہ اپنی من مانی کر سکتا ہے۔ دوسری جانب تہران انتظاميہ يہ دعویٰ کرتی ہے کہ افغان مہاجرين سے ان کے ملک کو سکيورٹی خدشات لاحق ہيں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ افغان شہری ایران میں منشیات لے کر آتے ہیں۔

ادھر افغان اہلکاروں کے مطابق ايران صرف غير رجسٹرڈ افغان مہاجرين ہی کو نہيں بلکہ ان ساڑھے نو لاکھ کے قريب رجسٹرڈ اور قانونی طور پر ايران ميں رہائش پذير ہونے کے حقداد لوگوں کے خلاف بھی کارروائياں کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ايران کی وزارت داخلہ گزشتہ مہينے ملک ميں بسنے والے سات لاکھ افغان باشندوں کو سرکاری طور پر دی گئی پناہ گزين کی حيثيت ميں تبديلی کرتے ہوئے انہيں اگلے سال مارچ تک وطن واپس بھيجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ايرانی وزارت داخلہ کی جانب سے اس بارے ميں کوئی جواب نہيں ديا گيا۔ اس کے علاوہ افغان نژاد شہریوں کو ايران کے اکتيس ميں سے صرف بارہ صوبوں ميں جانے کی اجازت ہے۔ ايران کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد بھی اپنی داخلی سکيورٹی کو بہتر بنانا ہے۔

اب تک ايران ميں کام کرنے والے افغان باشندے قريب پانچ سو ملين ڈالر وطن واپس بھيجا کرتے تھے تاہم ان میں سے اکثر کی وطن واپسی سے جنگ زدہ ملک افغانستان کی اقتصاديات کو مزيد دھچکا لگے گا۔

(as/aa (Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں