افغان وزیر خارجہ ایسے وقت بھارت کے دورے پر ہیں، جب چند دنوں قبل ہی روس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکا، افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھارت کے وسیع تر کردار کا خواہاں ہے۔
اشتہار
افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ ان دنوں بھارت کے تین روز ہ دورے پر ہیں۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور جنگ زدہ ملک میں قیام امن میں بھارت کے وسیع تر کردار کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کے نئے موقف کے تناظر میں اس دورے کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔
محمد حنیف اتمر نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ پیر کے روز افغانستان میں امن مساعی سمیت متعدد امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا، ”افغانستان کے وزیر خارجہ حنیف اتمر کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیرپا قیام امن کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ہم نے باہمی تعاون ترقی میں شراکت کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔“
بھارتی وزارت خارجہ کے نئے ترجمان اریندم باگچی نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی اور علاقائی دلچسپی کے امور کے علاوہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی کنکٹی ویٹی، سکیورٹی تعاون اور دیرپا امن کے موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی۔
افغان امن کے قیام کی کوششیں
افغان وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے، جب چند روز قبل ہی روس کی میزبانی میں ماسکو میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں شریک دیگر ممالک نے جنگ زدہ ملک میں فوراً جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔
اشتہار
حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششیں تیز ہو گئی ہیں کیونکہ ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے سے حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ سنیچر کو بھارت کے دورے پر آئے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ ایس جے شنکر کی بات چیت میں بھی افغان امن عمل پر بات چیت ہوئی تھی۔جوبائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ بھارت، افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے زیادہ وسیع کردار ادا کرے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اس ماہ کے اوائل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی
01:57
بھارت کا موقف
بھارت کا موقف ہے کہ افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل افغان عوام کی طرف سے ہونا چاہیے، جس پر افغان عوام کا کنٹرول ہو اور کوئی دوسرا ملک اس میں مداخلت نہ کرے۔ بھارت فروری 2020ء میں ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے بعد سے ہی ابھرتی ہوئی سیاسی صورت حال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
بھارت بارہا یہ اپیل کرتا رہا ہے کہ افغانستان کے تمام طبقات خوشحالی اور محفوظ مستقبل کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
کابل کی خودکفیل خواتین
03:51
This browser does not support the video element.
بھارت کے اقدامات
بھارت افغانستان کی ترقی کے لیے مختلف منصوبوں میں تعاون کر رہا ہے۔ بھارت وہاں اب تک مختلف تعمیراتی سرگرمیوں میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ گزشتہ نومبر میں بھی اس نے افغانستان میں آٹھ کروڑ ڈالر کی لاگت سے ایک سو سے زائد کمیونٹی پروجیکٹوں کے نئے پیکج کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ عرصے میں بھارت اور افغانستان کے درمیان قربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ اکتوبر میں افغان قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھارت آئے تھے جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی تھی۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
افغان وزیر خارجہ کے دورے کی اہمیت
بھارت میں سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ افغانستان امن کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، افغان وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک متوازن نتیجے کے لیے بھارت کا امن عمل میں شریک ہونا بہت ضروری ہے۔
مکھوپادھیائے کا کہنا تھا ”دیگر ملکوں کے برخلاف بھارت اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنا نہیں چاہتا۔ بھارت طالبان کے ساتھ بھی بات چیت کا خواہش مند ہے تاکہ قیام امن کے حوالے سے کوئی بہتر معاہدہ ہو سکے۔ بھارت گزشتہ ستمبر میں دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرکے یہ عندیہ بھی دے چکا ہے۔
افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر دہلی میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران کابل میں سابق بھارتی سفیروں، یہاں مقیم افغان طلبہ او ر تاجروں کے علاوہ بھارت میں پناہ لیے ہوئے افغان ہندوؤں اور سکھ کمیونٹی کے افراد سے بھی ملاقات کریں گے۔وہ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی کے بیس سال
افغان طالبان نے بیس سال قبل وادی بامیان میں مہاتما بدھ کے قدیمی مجسمے اڑا دیے تھے۔ اس وقت دنیا کے کئی ملکوں نے ان سے ایسا نہ کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن طالبان نے کسی کی ایک نہ سنی اور بارود سے یہ مجسمے تباہ کردیے۔
تصویر: Jean-Claude Chapon/AFP/Getty Images
بدھ مت تہذیب کا مرکز
افغانستان کی وادی بامیان میں یہ مجسمے جنوبی ایشیا اور چین کے درمیان تاریخی تجارتی روٹ پر تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ کابل سے شمال مغرب کی سمت قریب دو سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں بامیان وادی میں ہزاروں بدھ راہب رہا کرتے تھے۔
تصویر: Noor Azizi/XinHua/picture alliance
راہب ماہر تعمیرات بن گئے
بدھ راہبوں کے ساتھ ان کا آرٹ اور ثقافت بھی افغان پہاڑی علاقے تک پہنچا۔ ان راہبوں نے کئی مقامات پر سرخ پتھر والی غاروں کو تعمیر کیا۔ مہاتما بدھ کے مجسمے بھی ایسے ہے سرخ پتھر سے تخلیق کیے گئے تھے۔
ساتویں صدی عیسوی میں چینی سیاح اور زائر شوان زانگ بھارت کا سفر مکمل کر کے واپس چین پہنچے۔ اس سفر کے دوران انہیں بامیان سے گزرنے کا موقع ملا۔ ان کے مطابق اس وادی میں درجنوں عبادت خانے اور ہزاروں راہب تھے۔ وہاں قائم مہاتما بدھ کا مجسمہ پچاس میٹر اونچا اور سنہرا تھا۔
تصویر: ZUMA Wire/imago images
تعمیر کے مختلف رنگ
بامیان کے مجسمے کو "بدھ دیپم کار" یا روشنی دینے والا کہا جاتا تھا۔ مؤرخین کے مطابق یہ مجسمہ مختلف تعمیراتی رنگوں کا عکاس تھا۔ بدھ آرٹ کے ساتھ ساتھ یہ یونانی روایت کا حامل بھی تھا۔
تصویر: MAXPPP/Kyodo/picture alliance
سیاحت کا مرکز اور جنگ کا میدان
افغانستان میں اسلام کی آمد کے بعد ایک ہزار سال تک یہ مجسمہ قائم و دائم رہا۔ سن 1979 میں سوویت فوج کشی تک یہ سیاحوں کا ایک پسندیدہ مقام تھا۔ بعد کے عرصے میں مجسمے کے اردگرد کی غاروں کو اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور یہاں غیر ملکی افواج اور مقامی جنگجوؤں کے درمیان زبردست لڑائیاں ہوئیں۔
تصویر: Massoud Hossaini/AP Photo/picture alliance
طالبان کا غضب
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد مارچ 2001 میں انہوں نے اس مجسمے کی تباہی کی ٹھانی۔ بامیان کے اس مقام پر عبادت نہیں ہوتی تھی اور یہ ایک تاریخی مقام تھا۔ اس کے باوجود طالبان نے اس مجسمے کو اڑانے سے گریز نہیں کیا۔
تصویر: Saeed Khan/dpa/picture alliance
مجسمے کی تعمیر نو
مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی کے بعد اسے یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس مجسمے کی دوبارہ تعمیر کی کئی تجاویز ہیں لیکن ابھی کسی پر عمل نہیں کیا جا سکا۔