افغان پارلیمانی انتخابات ملتوی ہونے کے یقینی امکانات
عابد حسین
4 فروری 2018
افغانستان میں پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رواں برس جولائی میں ہونا تھا۔ تاہم اب ایسا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں مزید تین ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔
اشتہار
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے شعبہ آپریشنز کی نائب سربراہ وسیمہ بادغیسی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ادارہ رواں برس جولائی یا اس کے دو سے تین ماہ کے بعد پارلیمانی الیکشن کرانے کے لیے اپنی بنیادی تیاریاں مکمل کر سکتا ہے لیکن ان انتخابات کی حتمی تاریخ کا تعین سکیورٹی اداروں کی اجازت اور اس امر پر ہے کہ وہ سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کتنے تیار ہیں۔
ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ آزاد الیکشن کمیشن کو بعض تنظیمی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ وسیمہ بادغیسی کا یہ بھی کہنا ہے حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے لیے ایک ممبر کی تعیناتی میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کو بجٹ کے بعض پیچیدہ مسائل کا سامنا بھی ہے۔
افغانستان میں پارلیمانی الیکشن کا سال سن 2015 تھا لیکن سلامتی کے مخدوش حالات کے تناظر میں انہیں ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب التوا کے تسلسل کے باعث سن 2018 آ گیا ہے۔ دوسری جانب صدارتی انتخابات بھی سن 2019 میں ہوں گے۔
موجودہ افغان اسمبلی صدر اشرف غنی کے ایک خصوصی صدارتی فرمان کے تحت اپنی پارلیمانی ذمہ داریاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اشرف غنی کو اس صدارتی حکم جاری کرنے کے بعد کئی افغان سیاسی حلقوں کی شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات کے انعقاد کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان عسکریت پسندوں کی مسلح پرتشدد کارروائیاں ہیں اور ان میں تسلسل کی وجہ سے افغان سلامتی میں دراڑیں نمودار ہو چکی ہیں۔ افغانستان کے سیاسی اداروں کو تشکیل سے ہی کمزور بنیادوں پر استوار کرنے کے سوال کا سامنا بھی ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی ادارے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کو امداد جاری رکھنے کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ ان اداروں نے کہا ہے کہ پارلیمانی الیکشن کے کامیاب و شفاف انعقاد سے افغانستان کی سیاسی بقا اور سیاسی اداروں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد میں اضافہ یقنی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 کے صدارتی الیکشن پر صدر اشرف غنی اور اُن کے حریف موجودہ چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے سنگین بےضابطگیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
کرزئی کا جانشین کون؟
پانچ اپریل کو 26 ابتدائی امیدواروں میں سے نو افغان صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان امیدواروں میں صدر کرزئی کے انتہائی قریبی ساتھی بھی موجود ہیں، تاہم کوئی خاتون صدارتی امیدوار نہیں ہے۔
تصویر: Reuters
زلمے رسول، طویل شاہی قربت
زلمے رسول گزشتہ برس موسم خزاں تک افغانستان کے وزیرخارجہ رہے اور ماضی میں کئی برس تک صدر کرزئی کے سلامتی کے مشیر کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ وہ صدر کرزئی کے بھی قریبی ساتھی ہیں۔
تصویر: dapd
عبداللہ عبداللہ، دوسرے نمبر پر
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سابق وزیرخارجہ صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ افغانستان کی مضبوط اپوزیشن جماعت نیشل کولیشن آف افغانستان کے سربراہ ہیں اور صدر کرزئی کے مخالف بھی۔
تصویر: AP
اشرف غنی، جدت پسند
سابق وزیرخزانہ کے بارے میں ایک برطانوی میگزین ’پراسپیکٹ‘ نے کہا تھا کہ وہ ہمارے دور کے اہم ترین دانشور ہیں۔ سن 2009ء میں بھی وہ انتخابات میں شریک ہوئے تھے، تاہم انہیں زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے۔
تصویر: DW
گل آغا شیرازی
شیرازی (شیر کا بیٹا) قندھار میں سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد صوبائی گورنر بھی رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرسول سیاف، ایک اسلام پسند
عبدالرسول سیاف افغانستان کو ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ بنانے کے حامی ہیں۔ سیاف کے 80 اور 90 کی دہائیوں میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی رابطے تھے۔
تصویر: AP
قطب الدین ہلال، ایک عسکریت پسند
قطب الدین ہلال حزب اسلامی کے مضبوط حامی ہیں۔ یہ جماعت سابق افغان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں کام کرتی ہے۔حزب اسلامی کو دوسری سب سے بڑی مسلح تحریک سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہدایت امین ارسلا، کابل حکومت کے حامی
سن 1969ء میں ورلڈ بینک میں جگہ بنانے والے پہلے افغان شہری ارسلا طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبوری دور میں کرزئی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ وہ کرزئی کی پہلی کابینہ میں وزیرخزانہ تھے۔
تصویر: Getty Images
سردار محمد نادر نعیم، وفادار
نادر نعیم سابق افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے دور کے رشتہ دار ہیں جب کہ وہ سابق افغان وزیر اعظم محمد داؤد خان کے پوتے ہیں۔ داؤد خان نے سن 1973ء میں ظاہر شاہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
تصویر: Nader Naim Press office
داؤد سلطان زوئے، تاخیر سے امیدوار
رکن پارلیمان اور سابق پائلٹ سلطان زوئے افغانستان کے ایک مشہور ٹی وی چینل کے مالک ہیں۔ نومبر میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے حتمی امیدواروں میں انہیں بھی شامل کر لیا گیا۔