افغان قومی پرچم انیس مرتبہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس ملک میں صرف سن 1973 تا سن 1996 نو مختلف پرچم متعارف کرائے گئے، جن میں سے زیادہ تر جھنڈوں میں تین رنگ یعنی سیاہ، سرخ اور سبز نمایاں رہے ہیں۔
دو ہفتے قبل افغان دارالحکومت پر قبضہ کرنے والے کٹر سنی نظریات کے حامل انتہا پسند گروہ طالبان نے تمام سرکاری عمارتوں پر لہراتے تین رنگوں والے افغان پرچم کو اتار کر اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔ اب پارلیمان کی عمارت کے ساتھ ساتھ تمام پولیس اسٹیشنوں، فوجی تنصیبات اور دیگر حکومتی بلڈنگز پر ان جنگجوؤں کا سفید رنگ والا پرچم دیکھا جا سکتا ہے۔
ترنگا لہرانے والوں کے خلاف طالبان کا تشدد
ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ جنگجو ایسے لوگوں کی سرزنش کر رہے ہیں، جو طالبان کے خلاف مزاحمت دیکھانے کی خاطر افغانستان کا ترنگا لہرا رہے ہیں۔ کچھ واقعات میں طالبان جنگجوؤں نے ایسے افراد پر تشدد بھی کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایسی متعدد ویڈیو ہیں، جن میں یہ سب دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم طالبان نے باقاعدہ طور پر افغانستان کا پرچم تبدیل کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
طالبان کے قبضے کے بعد افغان ملک سے فرار کیوں چاہتے ہیں؟
01:56
ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے کی کوششوں میں 'اسلامی امارات افغانستان‘ کا سفید جھنڈا ان کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ اس پر تحریر کردہ کلمہ مسلمانوں کو نفیساتی طور پر ان کی طرف مائل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کچھ ناقدین کے مطابق طالبان دراصل اپنی حاکمیت کو جائز قرار دینے کی خاطر پرچم پر مذہبی سیاست کر رہے ہیں۔
کابل کی سڑکوں پر طالبان کے اس علامتی پرچم کی فروخت کا عمل جاری ہے۔ کابل یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے والے احمد شکیب بھی انہی افراد میں شامل ہیں، جو دارالحکومت میں 'اسلامی امارات افغانستان‘ کا پرچم فروخت کر رہے ہیں۔ طالبان نے سن انیس سو چھیانوے میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے ایک برس بعد ستائیس اکتوبر کو یہ جھنڈا متعارف کرایا تھا، جو ان کے تقریبا پانچ سالہ دور میں اس وسطی ایشیائی ملک کا سرکاری جھنڈا قرار پایا تھا۔
احمد شکیب نے بتایا، ''ہمارا مقصد ہے کہ افغانستان کے تین رنگوں والے پرچم کے بجائے اسلامی امارات افغانستان کے جھنڈے کو ملک بھر میں پھیلا دیا جائے۔‘‘ یہ البتہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس اسٹوڈنٹ کا طالبان کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق ہے یا یہ صرف نظریاتی سطح پر ایسا کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں کے دوران ملک بھر میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے احتجاج منعقد کیے گئے، جن میں مظاہرین نے افغانستان کا ترنگا پرچم تھاما ہوا تھا۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی افغانستان کے سرکاری پرچم کی تصاویر اور ایموجیز شیئر کی جا رہی ہیں۔ عام شہریوں کے علاوہ معزول حکومتی عہدیداروں اور کچھ کھلاڑیوں نے بھی قومی پرچم سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کے یوم آزادی کے دن بھی کابل اور کئی دیگر شہروں میں افغان عوام نے طالبان کے خلاف بطور مزاحمت اسی قومی پرچم کو ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق جلال آباد میں بائیس اگست کو ایک ایسے احتجاج میں شامل شرکاء کو منشتر کرنے کی خاطر فائرنگ بھی کی، جنہوں نے مزاحمت کے طور پر قومی پرچم لہرا رہے تھے۔
جلال آباد کے ایک رہائشی نے کہا، ''میرا دل اس پرچم سے جڑا ہوا ہے، میں اس جھنڈے کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ مجھے مار دو، فائرنگ کرو لیکن میں اس پرچم کو نہیں بھولوں گا‘‘۔
ع ب / ع ت (خبر رساں ادارے)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔