خواتین کی میڈیکل تعلیم پر پابندی کی افغان کرکٹرز نے مذمت کی
5 دسمبر 2024افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان اور معروف کھلاڑی محمد نبی نے صحت سے متعلق خواتین کی تعلیم و تربیت پر بندش کی کھل کر مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کے اس فیصلے کو بنیادی حقوق اور افغانستان کے مستقبل کے ساتھ غداری قرار دیا ہے۔ دونوں نے طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اس موقف پر نظر ثانی کرے۔
افغان ٹیم کے کرکٹ کھلاڑیوں نے پہلی بار اس طرح کھل کر خواتین کے حق میں آواز اٹھائی ہے، جہاں طالبان نے عورتوں کو معاشرے سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے۔
طالبان حکام نے نرسوں اور دائیوں کی تربیت کے لیے جو تعلیمی ادارے مخصوص ہیں، اب اس میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، جس کی دونوں کھلاڑیوں نے مذمت کی ہے۔
افغانستان: خواتین اب صحت عامہ کی تعلیم و تربیت سے بھی محروم کر دی جائیں گی؟
طالبان کی قیادت نے نجی اور سرکاری اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کے لیے طبی کورسز کی فراہمی بند کر دیں۔ اس فیصلے سے طب کی تعلیم تک خواتین کی رسائی مؤثر طور پر ختم ہونے کا امکان ہے۔
طالبان قیادت نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی اور یہ آخری شعبہ تھا، جو ان کے لیے اب تک کھلا تھا۔
افغانستان: خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافے کا سبب کیا؟
فیصلے پر 'گہرا دکھ اور مایوسی'
راشد خان نے سوشل میڈيا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی اصولوں یں تعلیم کو مرکزی مقام حاصل ہے اور، "اسلامی عقیدہ مردوں اور خواتین دونوں کے لیے علم کے حصول پر یکساں زور دیتا ہے۔" انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ہر شعبے خصوصاً طبی شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن: افغان خواتین کی ڈرامائی صورتحال
انہوں نے لکھا، "بہت گہرے دکھ اور مایوسی کے ساتھ میں افغانستان کی بہنوں اور ماؤں کی تعلیمی اور طبی اداروں کی حالیہ بندش پر غور و فکر کرنے بیٹھا ہوں۔ اس فیصلے کے نہ صرف ان کے مستقبل پر، بلکہ ہمارے معاشرے کے وسیع تر تانے بانے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس پر جس درد اور دکھ کا اظہار کیا ہے، وہ ان کے جدوجہد کی یاد دہانی کرتا ہے کہ انہیں کن سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
طالبان حکومت میں افغان صحافیوں سے زیادتیوں کا سلسلہ جاری
انہوں نے مزید کہا کہ "افغانستان، ہمارا پیارا وطن، ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کو ہر شعبے خصوصاً طبی شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی خاص طور پر تشویشناک ہے، کیونکہ یہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال اور وقار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ ہماری بہنوں اور ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ایسے پیشہ ور طبی افراد تک رسائی حاصل ہو، جو ان کی ضروریات کو صحیح معنوں میں سمجھتی ہوں۔"
طالبان متنازع اخلاقی قانون پر عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار
لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا 'ملک سے غداری' ہے
افغان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی محمد نبی نے طالبان کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "طالبان کا لڑکیوں پر طب کی تعلیم پر پابندی لگانے کا فیصلہ نہ صرف دل دہلا دینے والا ہے بلکہ انتہائی قسم کی ناانصافی پر مبنی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ ہر ایک کے لیے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے اور تاریخ ایسی مسلم خواتین کی متاثر کن مثالوں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے علم کے ذریعے کئی نسلوں کے لیے اہم کردار ادا کیا۔"
محمد نبی نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس تعلق سے اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔ انہوں نے سوشل میڈيا ایکس پر لکھا، "میں طالبان سے ان اقدار پر غور کرنے کی تاکید کرتا ہوں: لڑکیوں کو سیکھنے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع نہ دینا ان کے خوابوں اور ہماری قوم کے مستقبل دونوں کے ساتھ غداری ہے۔ ہماری بیٹیوں کو پڑھنے، بڑھنے اور سب کے لیے ایک بہتر افغانستان بنانے دیں۔ یہ ان کا حق ہے، اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔"
طالبان کے خواتین پر پابندی کے قوانین، یو این کے خدشات مسترد
واضح رہے کہ افغانستان میں صحت کے حکام نے حال ہی میں دارالحکومت کابل میں تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر تعلیمی اداروں کے ناظمین کو مطلع کیا گیا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے حکم پر جلد ہی افغان خواتین کو ہیلتھ اسٹڈیز یا صحت سے متعلق تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔
یہ اطلاع صحت عامہ کی وزارت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی تک پہنچاتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی باضابطہ سرکاری مکتوب جاری نہیں کیا گیا ہے، تاہم تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز کو ایک میٹنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اب ان کے اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)