افغان کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان، شکست کے بعد بھی کامیاب رہا
30 مئی 2011افغان کرکٹ ٹیم کے کوچ راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے درخواست کی ہے کہ ان کی ٹیم کو پاکستان کے مقبول ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ سری لنکن کرکٹرز پر ہونے والے خونریز حملے کے بعد افغانستان گزشتہ دو برس میں پاکستان کے دورے پر آنے والی دنیا کی پہلی غیر ملکی کرکٹ ٹیم تھی۔
ریڈیو ڈوئچے ویلے سےگفتگو کرتے ہوئے راشد لطیف کا کہنا تھا کہ’’ہمیں پاکستان آ کر بہت کچھ سیکھنےکو ملا مگر پی سی بی کو چاہیے کہ وہ اب آئندہ ماہ ہونے والے اپنے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں بھی ہماری ٹیم کوکھیلنے کا موقع دے۔ اس سے پاکستان کے ڈومیسٹک ایونٹ کی رنگینی اور دلچسپی میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘
افغان ٹیم کے اس اولین دورہ پاکستان میں مہمان ٹیم کے نائب کپتان محمد نبی اور لیگ اسپنر سمیع اللہ شنواری نے آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ افغان کھلاڑیوں کی کارکردگی کو میزبان کپتان اور پاکستانی آل راؤنڈر سہیل تنویر نے سراہتے ہوئے کہا کہ افغان کھلاڑیوں کے کھیل میں نکھار آرہا ہے۔’’فیصل آباد کے آخری ون ڈے میچ میں انہوں نے ہمیں بہت ٹف ٹائم دیا۔ اس ٹیم میں تجربے کی کمی کو وقت پورا کرے گا۔ اس کے بعد افغانستان کی ٹیم بڑی ٹیموں کو بھی ہرانے کے قابل ہو جائے گی۔‘‘
افغانستان کرکٹ ٹیم نے عالمی سطح پر انتہائی کم عرصے میں ڈرامائی کامیابیاں حاصل کرکے خود کو منوایا ہے۔ اس ٹیم کے کپتان نوروز خان منگل سمیت زیادہ ترکھلاڑیوں نے اپنی کرکٹ سابقہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستانی شہر پشاور کے مضافات میں کچرہ گری کے پناہ گزین کیمپوں میں سیکھی تھی۔
دو ہزار آٹھ میں آئی سی سی کی ڈویژن پانچ سے اپنے سفرکا آغاز کرنے والی افغان ٹیم نے محض دو سال کے عرصے میں دنیا کے ترانوے ممالک کو پیچھے چھوڑ کر جب ون ڈے سٹیٹس حاصل کیا تو امریکی ویزر خارجہ ہلیری کلنٹن نے انتہائی کٹھن حالات میں حاصل کی گئی اس ٹیم کی کامیابیوں کو پوری دنیا کے لیے مثالی قرار دیا تھا۔ جنگ سے متاثرہ ملک میں کرکٹ کے فروغ کے راستے میں حائل مشکلات تاحال دور نہیں ہو سکیں۔ اس بابت راشد لطیف کا کہنا تھا جلال آباد کے علاوہ کسی حد تک صرف کابل میں نیٹ پریکٹس کی سہولت میسر ہے تاہم میچ کھیلنے کے لیے گراؤنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ سات دن کی پریکٹس ایک ون ڈے میچ کھیلنے کے برابر ہے۔ ’’اس لیے جلد از جلد افغانستان میں گراؤنڈز بنانا ہوں گے امید ہےکہ جلال آباد کا کرکٹ اسٹیڈیم جلد مکمل ہوجائے گا۔‘‘
ون ڈے انٹرنیشل سٹیٹس کے حصول کے بعد بھی اب تک ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کسی بھی ملک نے افغانستان کی ٹیم سے ون ڈے انٹرنیشل میچ نہیں کھیلا۔ کرکٹ کے بڑے ممالک کی اس سرد مہری کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر افغان کوچ کا کہنا تھا ’’ فی الحال ہماری توجہ ون ڈے کی بجائے ٹوئنٹی ٹوئنٹی پر ہے اگر ہم کینیا اور ہالینڈ جیسے ملکوں کے خلاف زیادہ سیریز کھیل کر اچھے نتائج دیں گے تو بڑی ٹیمیں بھی ہم سے ضرور کھیلیں گی۔‘‘
آئندہ ماہ شروع ہونے والا آئی سی سی انٹرکانٹی نینٹل کرکٹ ٹورنامنٹ افغانی ٹیم کی اگلی اسائمنٹ ہے، جس میں اسے اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنا ہے۔ دوسری طرف اس سیریز سے پاکستان کو کیا ملا یہ سوال جب ڈوئچے ویلے نے سہیل تنویر سے کیا توان کا جواب تھا کہ ایک تو آخرکار کسی غیر ملکی ٹیم نے پاکستان آ کر پرامن ماحول میں سیریز کھیلی اور دوسرا اس سیریز سے پاکستان کو شرجیل خان اور بابراعظم جیسے اچھے کھلاڑی ملے۔ سہیل تنویر کا کہنا کہ پاکستان کرکٹ کی بقا کے لیے مستقبل میں بھی ایسی سیریز کا انعقاد ضرور ہونا چاہیے۔
رپورٹ : طارق سعید
ادارت : عدنان اسحاق