پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات ميں حاليہ کچھاؤ کے نتيجے ميں کابل حکومت کے پھلوں کی برآمدات بڑھانے سے متعلق منصوبے منفی طور پر متاثر ہو رہے ہيں۔
اشتہار
افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار کے ضلعے پنجوائی ميں انگور کا پھل اگانے والے ايک کسان عبدالصمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زمين پر پھل اگانے کے ليے کافی سرمايہ کاری کی تھی تاہم پاکستان کی جانب سے بار بار سرحد بند کر دينے کے فيصلے کے نتيجے انہيں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ صمد کے مطابق، ’’ہمارے پاس واپس پوست کاشت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہيں رہتا۔ يہ ہمارے ليے پھلوں کے مقابلے ميں کہيں زيادہ منافع بخش ہے۔‘‘
انار اور انگور ايک عرصے سے افغانستان کی زرعی شعبے کے اہم ستون مانے جاتے رہے ہيں ليکن فضائی راستوں کی کافی محدود دستيابی اور پڑوسی ملک پاکستان کی جانب سے زمينی راستوں کی مسلسل بندشوں کے سبب افغانستان سے پھلوں کی برآمدات متاثر ہو رہی ہيں۔ گزشتہ برس يعنی سن 2016 ميں پاک افغان سرحد پر تجارت کی غرض سے پھلوں سے لدے ٹرکوں کی لمبی لمبی قطاريں عام سی بات تھی۔ فائرنگ کے تبادلے اور متعدد ديگر واقعات کی بناء پر اسلام آباد اور کابل حکومتوں کے مابين کشيدگی کے نتيجے ميں دونوں پڑوسی ممالک کے درميان مرکزی گزر گاہ بند کر دی جاتی اور نتيجتاً سينکڑوں ٹن پھل اور ديگر اشياء ضائع ہو جاتے ہیں۔
سن 2015 ميں افغانستان سے تقريباً باون ہزار ٹن انار پاکستان، متحدہ عرب امارات اور بھارت برآمد کيے گئے۔ گزشتہ برس تاہم برآمدات کا حجم صرف پندرہ ہزار ٹن رہا۔ برآمدات ميں کمی سے صرف انار ہی نہيں بلکہ ديگر افغان اشياء بھی متاثر ہوئيں ہیں۔ قندھار ميں افغان چيمبر آف کامرس کے سربراہ نصراللہ ضمير کا کہنا ہے، ’’ہم قندھار سے چاليس ہزار ٹن انگور برآمد کرنے کے ليے تيار تھے تاہم پاکستان نے اکتوبر ميں سترہ ايام کے ليے سرحد بند کر دی اور ہمارے تاجر اپنی اشياء برآمد نہ سکے۔‘‘ افغان وزير زراعت اسد اللہ ضمير نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد حکومت سرحدی سکيورٹی کی خراب صورت حال کے تناظر میں در اصل افغان برآمدات کو نقصان پہنچانا اور اپنے مقامی کسانوں کو مسابقت سے بچانا چاہتی ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں بڑے پيمانے پر پوست کی کاشت طالبان عسکريت پسندوں کی مالی معاونت کا سبب بنتی رہی ہے۔ کابل حکومت ايک عرصے سے کوششوں ميں ہے کہ کسانوں کو پھل اور زعفران کی کاشت کے متبادل راستے فراہم کيے جائيں البتہ يہ کوششيں کافی حد تک ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پوست کی کاشت آج بھی کئی افغان شہريوں کے ليے ذريعہ آمدن ہے۔ ايک برس قبل کے مقابلے ميں گزشتہ برس يعنی سن 2016 ميں پوست کی کاشت ميں دس فيصد اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔
بلوچستان میں پوست کی کاشت کے خلاف بڑا آپریشن
بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے کی منشیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہے. فرنٹیئر کور ژوب ملیشیا کے اہلکاروں نے پاک افغان سرحد سے ملحقہ مسلم باغ اور قریبی علاقوں میں ایک آپریشن میں 380 ایکڑ پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کئی ٹن پوست کی خریداری
تیار شدہ پوست کٹائی کے بعد مخصوصی گوداموں میں ذخیرہ کی جاتی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ یہ پوست ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں اور بعد میں اسے ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ مکران ڈویژن، تربت، مند، گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں قائم فیکٹریوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے، جو غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر دی جاتی ہے.
تصویر: DW
ایک منافع بخش کاروبار
زیرنظرتصویر ضلع لورالائی کے علاقے دکی کی ہے، جہاں اس آپریشن کے دوران 60 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تباہ کی گئی۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پوست کی کاشت لوگوں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس لیے سخت پا بندی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں پوست کاشت کرتی ہے۔
تصویر: DW
ٹریکٹروں کا استعمال
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہمراہ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران سینکڑوں ایکڑ زمیں پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی ہے ۔ اس کارروائی میں مقامی لوگوں نے بھی فورسز کی معاونت کی اور پوست تلف کرنے کے لیے ٹریکٹر بھی استعمال کئے گئے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
پوست کے نئے کھیت
لورالائی کے علاقے میختر میں پوست کی سب سے زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی۔ یہاں 190 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی گئی۔ منشیات کے اسمگلروں نے اس بارپوست کی کاشت کے لیے یہاں ایسے کھیتوں کا انتخاب کیا تھا جہاں اس سے قبل پوست کاشت نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: DW
زیادہ فصلیں غیر مقامی افراد کی
حکام کے مطابق پوست کی کاشت کے خلاف ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں تلف کی گئی اکثر فصلیں غیر مقامی افراد کی ملکیت تھیں۔ پوست کاشت کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار ان مقدمات میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
دالبندین اور ملحقہ علاقے
سکیورٹی فورسز نے پوست کی کاشت تلف کرنے کے لیے ضلع چاغی، دالبندین اور ملحقہ علاقوں میں بھی کارروائی کی، جہاں اب تک 90 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔ یہ پوست مقامی آبادی سے کافی دورپہاڑوں کے دامن میں کاشت کی گئی تھی۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ایک ایکڑ زمین پر پوست کاشت کرنے کا دو لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اسمگلروں نے یہ زمین پوست کی کاشت کے لیے لیز پر حاصل کی تھی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
ڈرگ مافیا ایک مدت سے سرگرم
پوست کی فصل کے خلاف جاری اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دکی کے علاقے میں 65 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔ ڈرگ مافیا کے لوگ بڑے پیمانے پر یہاں ماضی میں بھی پوست کی کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
تیار فصلوں کی بھی تلفی
بلوچستان کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اس کارروائی کے دوران پوست کی تازہ اگائی ہوئی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں بھی تباہ کی گئیں جو تیار ہو چکی تھیں۔ حکام کے مطابق کٹائی کے بعد اسمگلر ان فصلوں سے حاصل ہونے والی پوست ہیروئن کی فیکٹریوں میں سپلائی کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
تصویر: DW
1999ء کا پاکستان پوست سے پاک قرار پایا تھا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی سطح پر انیس سو ننانوے میں پاکستان کو پوست سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اب پھر اس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ماہرین زیادہ آمدنی بتاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور منزکئی کے علاقے میں کارروائی کے دوران اسمگلروں کے دو ٹھکانے تباہ بھی کیے گئے اور بڑی مقدار میں برآمد کی گئی پختہ پوست بعد میں منزکئی کے ایک میدان میں نذر اتش کر دی گئی۔
تصویر: DW
پوست کی کاشت اور عسکریت پسندی
مکران ڈویژن میں ہیروئن کے بعض اسمگلرز منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے لیے اسلحہ اور سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے پوست کے خلاف کی جانے والی اس حالیہ کارروائی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کو ختم کیا جائے.
تصویر: DW
منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت کرنے والے
پوست کی کاشت کےخلاف ہونے والی اس کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے 45 ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو کہ پوست کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ ان افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی میں پوست کی کاشت کے خلاف منظور کی گئی ایک متفقہ قرارداد میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں پوست کی فصلیں تلف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بلوچستان، ڈہائی لاکھ افراد منشیات کے عادی
بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ منشیات کےعادی افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کل بلوچستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں اسّی ہزار افراد ہیروئن کےعادی ہیں۔