افغان گورنر کا برطرفی سے انکار، سیاسی بحران سر اٹهاتا هوا
شادی خان سیف، کابل
20 دسمبر 2017
افغان صوبه بلخ کے بااختیار گورنر عطا محمد نور نے ملکی صدر محمد اشرف غنی کی جانب سے استعفی قبول کیے جانے کے بعد عہدے سے برطرف ہونے سے انکار کر دیا ہے، جس باعث جنگ زده ملک میں ایک نیا سیاسی بحران ابهرتا دکهائی دے رہا ہے۔
اشتہار
اس واضح مخالفت اور انکار نے یہ ثابت کر دیا ہے که گورنر عطا محمد نور افغانستان کے دیگر 33 صوبوں کے گورنرز کی طرح کوئی عام حکومتی اہلکار نہیں۔ وه گزشته قریب 16 برسوں سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔ ان کا شمار ایک ایسی سرمایه دار اور بااختیار شخصیت کے طور پر ہوتا ہے، جس کے پاس مسلح حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
حالیه تنازعه اس وقت کهڑا ہوا جب دو روز قبل مقامی حکومتوں کے خود مختار ادارے کی جانب سے جاری کرده اعلامیے میں اعلان کیا گیا که صدر غنی نے گورنر عطا محمد نور کا استعفی قبول کر لیا ہے اور انجینئر داؤد کو بلخ کے نئے گورنر کی حیثیت سے منتخب کر لیا ہے۔ گرچه نیا گورنر بهی عطا محمد نور ہی کی جماعت 'جمعیت اسلامی افغانستان' سے ہے، تاہم نور اور ان کی مکمل جماعت، جو طالبان دور کے خاتمے سے اب تک حکومت میں ہے، سراپا احتجاج ہے که آخر صدر غنی نے کیونکر 'جلد بازی میں'یه فیصله کیا، جو ان کے بقول عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
انفرادی طور پر عطا محمد نور اور صوبے میں ان کے حامی عہدیداروں نے فیصله ماننے سے واضح انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے افغانستان متعین غیر ملکی افواج کو 'مداخلت' نه کرنے کا کہا ہے اور اپنے عہدے کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے۔ دارالحکومت کابل میں ان کی جماعت کے صدر اور ملکی وزیر خارجه صلاح الدین ربانی نے ہنگامی اجلاس کے بعد صدر غنی پر زور دیا که وه اپنے فیصلے پر پهر سے غور کریں اور ساتھ ہی یه دھمکی بھی دی ہےکه دوسری صورت میں 'جمعیت' حکومت سے علیحده ہوجائے گی، جس باعث پیدا ہونے والے حالات کے ذمه دار صدر مملکت خود ہوں گے۔
صدر غنی بظاہر خاموشی سے حالات کا جائزه لے رہے ہیں۔ ان کے ترجمان شاه حسین مرتضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که صدر مملکت نے عطا محمد نور کو برطرف نہیں کیا بلکه ان کا دیا ہوا استعفی منظور کیا ہے۔ چند ماه قبل گورنر نور نے صدر غنی سے اپنی جماعت کے لیے مزید اختیارات طلب کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تها، جس دوران انہوں نے اپنا استعفی بهی پیش کیا تها۔ اب ان کا کہنا ہے که وه استعفی دراصل مطالبات سے مشروط تها اور دوسری صورت میں قابل اطلاق نہیں۔
تجزیه نگار کبیر رنجبر کے بقول یه صورتحال کسی بهی صورت میں مملکت اور عوام کے مفاد میں نہیں، ’’گورنر عطا محمد نور کو قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ افغانستان حالات جنگ سے دوچار ہے، ایسے میں مزید کشیدگی عوام کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے‘‘۔ واضح رہے که عطا محمد نور نے حال ہی میں نائب صدر عبد الرشید دوستم کے ہمراه حکومت مخالف ایک اتحاد قائم کیا تها۔ دوستم خود اپنے ایک سیاسی حریف پر جنسی اور جسمانی تشدد کے ایک کیس کے بعد سے ترکی میں مقیم ہے۔ دوستم کے معاملے میں بین الاقوامی قوتوں، خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین نے فوری طور پر قانون کی بالادستی کے لیے صدا بلند کی تهی۔ عطا محمد نور کے معاملے میں یه قووتیں بهی فی الحال خاموش ہیں۔
افغانستان کے ایک بڑے اخبار 'سر خط' نے حالات پر تبصره کرتے ہوئے لکها ہے که امریکا نے دبئی میں عطا محمد نور کے اربوں ڈالر مالیت اثاثوں کی جانچ کی ہے اور جلد ہی افغانستان کے اندر بهی ان سے حساب کتاب مانگا جاسکتا ہے۔ 'جمعیت اسلامی افغانستان' البته اس تمام معاملے کو صدر غنی کی خود پرستانہ پالیسیوں کا نتیجه قرار دے رہی ہے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔