افغان یونیورسٹی طلبہ اور داعش کے مابین رابطے، تفتیش جاری
18 نومبر 2015![](https://static.dw.com/image/18635918_800.webp)
افغان دارالحکومت کابل سے بدھ اٹھارہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض اور افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے حق میں ایک مظاہرہ کرنے پر جن دو درجن سے زائد یونیورسٹی طلبہ کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا تھا، ان کے بارے میں اس حوالے سے چھان بین جاری ہے کہ آیا ملکی یونیورسٹیوں کے ان نوجوان طالب علموں اور داعش کے مابین باقاعدہ رابطے پائے جاتے ہیں۔
ہندوکش کی اس ریاست کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان جاوید فیصل نے آج کہا کہ کابل حکومت اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے طور پر افغان یونیورسٹیاں شدت پسندانہ سرگرمیوں کا گڑھ نہ بنیں۔
داعش کے حق میں مظاہرہ کرنے پر جن 27 افغان یونیورسٹی طالب علموں کو اسی ہفتے گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے چند روز قبل داعش یا دولت اسلامیہ کے حق میں مظاہرہ کیا تھا اور ان کا تعلق مشرقی افغان شہر جلال آبا دکی ننگرہار یونیورسٹی سے بتایا گیا ہے۔
افغانستان کی نیشنل انٹیلیجنس ایجنسی کے مطابق جن طالب علموں کو حراست میں لیا گیا ہے، ان کے قبضے سے حکام نے چھاپے کے دوران مختلف طرح کے پرچم اور کئی طرح کا دہشت گردانہ مواد بھی برآمد کیا تھا۔ ان طالب علموں نے ننگرہار یونیورسٹی کیمپس کی حدود میں داعش کی حمایت میں مظاہرہ گزشتہ ہفتے کیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کی حامی مقامی عسکریت پسند تنظیموں اور گروپوں کے جہادیوں نے اس سال کے دوران خاص کر مشرقی افغان صوبے ننگرہار میں کافی حد تک نہ صرف اپنی موجودگی کو یقینی بنایا ہے بلکہ وہ وہاں اپنے قدم جمانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔
داعش کے حامی عسکریت پسند گروپوں کے ان جہادیوں کی اکثر افغان طالبان اور ملکی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور ان کے بارے میں سکیورٹی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کے قریب افغان علاقوں میں چند اضلاع پر کنٹرول بھی حاصل کر چکے ہیں۔