نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کی اپنی شکست تسلیم نہ کرنے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ''شرمندگی'' سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شکست تسلیم نہ کرنے سے اقتدار کی منتقلی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑیگا۔
اشتہار
امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم نہ کرنے کا اثر یہ ہوگا کہ تاریخ میں انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائیگا۔ صحافیوں نے ان سے جب یہ سوال پوچھا کہ آخر وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے پر کیا کہیں گے کہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں وہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا، ''بے تکلفی سے کہوں تو، میں سوچتا ہوں یہ ایک بڑی شرمندگی کی بات ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''میں اسے تدبر کیسے کہہ سکتا ہوں۔ میرے خیال سے بطور صدر اپنے پیچھے وہ جو ورثہ چھوڑ رہے ہیں اس کے لیے یہ قطعی درست نہیں ہوگا۔'' اس موقع پر جو بائیڈن نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ ٹرمپ کے تعاون کے بغیر اقتدار یا انتظامیہ کی منتقلی میں کوئی عملی پریشانی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ منتقلی کا عمل ''بہت اچھی طرح جاری ہے اور اسے کوئی بھی شئے روک نہیں سکتی۔''
امریکا میں مکمل اور باقاعدہ طور پر اقتدار کی منتقلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہوتا جب تک وفاقی انتظامیہ کا محکمہ 'جنرل سروس ایڈمنسٹریشن' اس بات کا تعین نہیں کر لیتا کہ عام انتخابات میں کس امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔ چونکہ صدر ٹرمپ کی ٹیم نے بعض ریاستوں میں انتخابی نتائج کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، اس لیے کامیاب امیدوار کی ابھی تک باضابطہ تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی سکیورٹی خطرات سے متعلق جو یومیہ کلاسیفائیڈ بریفنگ ہوتی ہیں اس سے ابھی انہیں آگاہ نہیں رکھا جا رہا ہے۔
امریکا کی واپسی
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ سکیورٹی سے متعلق یومیہ بریفنگ کام کی چیز ہے تاہم یہ اتنی ضروری بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''کلاسیفائیڈ معلومات تک رسائی قابل استعمال ہوتی ہے لیکن میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس سے متعلق کوئی فیصلہ کر سکوں۔ جیسے کہ میں نے کہا، ایک وقت میں ایک ہی صدر ہوتا ہے، اور وہ 20 جنوری تک صدر رہیں گے۔ اس معلومات تک رسائی بہتر ہوتی لیکن اتنی اہم بھی نہیں ہے۔''
اشتہار
انہوں نے کہا، ''ہم وہی کریں گے جو ہم کرتے رہنے کی بات کرتے رہیں، اگر وہ اپنی شکست تسلیم کر کے ہمیں فاتح مانتے جو کہ ہم ہیں۔'' ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اگر انہیں اس وقت ٹرمپ سے کچھ کہنا ہو تو کیا کہیں گے، اس پر بائیڈن نے جواب دیا، ''مسٹر صدر، آپ سے بات چیت کرنے کا منتظر ہوں۔''
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس دوران کئی بیرونی ممالک کے رہنماؤں سے ان کی بات چیت ہوئی ہے جس میں انہوں نے انہیں بتایا کہ، ''امریکا واپس آگیا ہے۔ ہم کھیل میں واپس ہو رہے ہیں۔ امریکا تن تنہا نہیں ہے۔''
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
ٹرمپ کے اقتدار کی بھی دوبارہ واپسی
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ اس انداز سے کام کر رہا ہے جیسے ٹرمپ دوبارہ انتخاب میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران پومپیو نے کہا، '' ہموار طریقے سے ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ کی منتقلی ہوگی۔'' ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو امریکی وزارت خارجہ کی انتظامی منتقلی پر پورا اعتماد ہونا چاہیے۔
امریکا کے بیشتر میڈیا اداروں نے گزشتہ سنیچر کو ہی جو بائیڈن کی کامیابی کا اعلان کر دیا تھا۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے بائیڈن کو امریکا کا نو منتخب صدر بھی تسلیم کر لیا ہے اور ان سے فون پر بات بھی کی ہے۔