اقتصاديات کا نوبل انعام: ایک برطانوی اور دو امريکی ماہرین کے لئے
11 اکتوبر 2010اس سال کا معاشيات کا نوبل انعام حاصل کرنے والے امريکہ کے پيٹر ڈائمنڈ اور ڈيل مورٹينسن اور قبرصی نژاد برطانوی ماہر کرسٹوفر پيساريديس ہيں۔ اُن کے لئے اس انعام کا اعلان آج پیر کے روز کيا گيا۔ اُنہيں نوبل انعام اس موضوع پر ريسرچ پر ديا گيا ہے کہ سپلائی اور ڈیمانڈ يعنی رسد اور طلب روزگار کی منڈی ميں اور اُس سے باہر بھی ايک دوسرے سے مطابقت کيوں نہيں رکھتے۔
اس انعام سے ايک ايسے پاليسی ساز مسئلے پر توجہ مرکوز ہوتی ہے، جس نے حکومتوں کو، خاص طور پر سن 1970 کے عشرے کے معدنی تيل کے بحران کے وقت سے پريشان کر رکھا ہے، اور يہ مسئلہ خصوصاً بے روزگاری کی اونچی شرح کا ہے، جو عالمی اقتصادی بحران کے بعد اور بھی بڑھ گئی ہے۔
انعام دينے والی جيوری نے ان تينوں اقتصادی ماہرين کو ’’منڈيوں کے تجزيے‘‘ کے سلسلے ميں اُن کے کام پر سراہا، جس سے يہ سمجھنے ميں مدد ملتی ہے کہ بےروزگاری، خالی ملازمتوں اور اُجرتوں پر حکومتوں کی اقتصادی پاليسی اور معیشت پر کنٹرول کے ضابطوں کا کيا اثر پڑتا ہے۔
روايتی نظريے اور مفروضے کے مطابق ليبر مارکيٹ يا روزگار کی منڈی کو خود مختار طور پر کام کرنا چاہئے، جس ميں ملازمت کے متلاشی افراد کو ملازمتيں ملتی رہيں اور اس طرح ايک توازن قائم رہے۔ تاہم نوبل انعام پانے والے تينوں ماہرين نے اپنے ’ڈائمنڈ، مورٹينسن، پيساريديس ماڈل‘ کے ذریعے يہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ روزگار کی منڈياں ہميشہ ہی اس طرح کام نہيں کرتيں۔ چھوٹے رخنوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ فروخت کرنے والے اتنی آسانی سے خريدار نہ ڈھونڈ سکيں اور ملازمت کے متلاشی افراد کو ايسے ادارے نہ مل سکيں، جو اُنہيں ملازمت دينے پر راضی ہوں۔
مثال کے طور پرملازم تلاش کرنے والے ادارے کو ملازمين کی ضرورت ہونے کے باوجود کوئی چھوٹا سا خرچ بھی کسی نئے ملازم کو نوکری دینے سے باز رکھ سکتا ہے۔
تينوں اقتصادی ماہرين کی ريسرچ سے يہ وضاحت ہوتی ہے کہ اقتصادی حالات کے بہتر ہو جانے کے باوجود بے روزگاری کيوں برقرار رہتی ہے اور اُسے کم کرنے ميں اتنی زیادہ مشکلات کیوں پيش آتی ہيں۔
اس نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی جيوری کے مطابق اِن ماہرین کی ريسرچ ليبر مارکيٹ کے علاوہ قومی معیشتوں ميں بھی کام آ سکتی ہے۔
70 سالہ امريکی ماہر اقتصاديات ڈائمنڈ، ميسا چوسيٹس انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی سے منسلک ہے اور 71 سالہ مورٹينسن نارتھ ويسٹرن يونيورسٹی سے وابستہ ہيں جبکہ 61 سالہ پيساريديس لندن اسکول آف اکنامکس ميں پڑھاتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک