اقتصادی بحران سے دوچار سری لنکا میں صدارتی انتخابات کا اعلان
26 جولائی 2024سری لنکا کی آزاد الیکشن کمیشن نے آج جمعے کے روز ملک میں صدارتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ صدارتی انتخابات اکیس ستمبر کو ہوں گے اور اس کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی 15 اگست سے قبول کیے جائیں گے۔
سمجھا جاتا ہے کہ صدر وکرم سنگھے اپنی امیدواری پیش کریں گے جب کہ ان کا اصل مقابلہ اپوزیشن لیڈرساجتھ پریم داسا اور انورا دیسانائیکے سے ہو گا، جو ایک بائیں بازو کی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں اور ملک میں اقتصادی بحران کے بعد سے کافی مقبولیت حاصل کرلی ہے۔
بحران زدہ سری لنکا: سیاحوں کی واپسی سے معیشت بہتر ہوتی ہوئی
کیا سری لنکا خود کو معاشی بحران سے باہر نکال سکے گا؟
سری لنکا نے سن 2022 میں خود کو دیوالیہ قرار دے دیا تھا اور تقریباً 83 بلین ڈالر کے ملکی اورغیر ملکی قرضوں کی ادائیگی معطل کردی تھی۔ اس کے بعد سے یہ اس جنوب ایشیائی جزیرہ نما میں پہلا الیکشن ہو گا۔
دیوالیہ قرار دیے جانے کے بعد سے سری لنکا میں غیر ملکی زرمبادلہ کا بڑا بحران پیدا ہوگیا اور اس کی وجہ سے خوراک، ادویات، ایندھن اور کھانا پکانے والی گیس جیسی لازمی اشیاء کی سنگین قلت پیدا ہوگئی جب کہ بجلی میں کٹوتی کے واقعات بھی کافی بڑھ گئے۔
آئی ایم ایف کے اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش
مجوزہ صدارتی انتخابات کو قرضوں کی ادائیگی کے تنظیم نو پروگرام کے حوالے سے سری لنکا کی کوشش نیز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آوٹ پروگرام کے تحت مالیاتی اصلاحات نافذ کرنے کے اقدامات کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔
سری لنکا 2026ء تک دیوالیہ پن کا شکار رہے گا، ملکی صدر
کیا پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے؟
ملک کی معاشی بدحالی نے سیاسی بحران کو جنم دیا جس نے اس وقت کے صدر گوٹابایا راجا پکسے کو سن 2022 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد پارلیمان نے وزیر اعظم وکرم سنگھے کوصدر کے طورپر منتخب کیا۔
وکرم سنگھے کی صدارت میں سری لنکا نے آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی قرض دہندگان سے بات چیت کی تاکہ قرضوں کی تنظیم نو کی جاسکے اور معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا جاسکے۔
گزشتہ ماہ میں آئی ایم ایف نے سری لنکا کی مدد کرنے کے لیے چار سال کے بیل آوٹ پیکج کو منظوری دی تھی۔
وکرم سنگھے کے اقدامات سے عوام میں ناراضی
وکرم سنگھے نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ان کی حکومت نے بھارت، چین،فرانس اور جاپان سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو کا ایک معاہدہ کرلیا ہے۔اسے ملک کی معیشت کی بحالی کی سمت ایک اہم قرار دیا جارہا ہے۔
وکرم سنگھے کے دور میں معاشی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت پر بڑی حد تک ختم ہوگئی ہے۔ لیکن بجلی کے بلوں میں اضافہ اور پیشہ ورافراد نیز تاجروں پر نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے عوام میں ناراضی بھی بڑھی ہے۔ حکومت نے یہ اقدامات آئی ایم ایف کے شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے کیے ہیں۔
سری لنکا کا بحران بڑی حد تک اقتصادی بدانتظامی کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی کووڈ انیس کی وبا اور سن 2019 میں دہشت گردانہ حملوں نے بھی وہاں کی سیاحت کی صنعت، جسے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، کو بری طرح نقصان پہنچایا۔
کورونا وبا کی وجہ سے بیرون ملک رہنے والے اس کے شہریوں کی طرف سے حاصل ہونے والی غیر ملکی ترسیلات زر بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
اس کے علاوہ اس وقت کی حکومت نے سن 2019 میں ٹیکسوں میں کمی کردی، جس کے نتیجے میں سرکاری آمدن گھٹ گئی۔
ماہرین کے مطابق بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ معاہدوں کے بعد سری لنکا اب قرضوں کی ادائیگی کو سن 2028 تک موخر کرسکے گا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)