اقتصادی جائزہ، اعداد وشمار کا جال
2 جون 2016وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق کپاس کی پیداوار میں اٹھائیس فیصد کمی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے جی ڈی پی کو صفر اعشاریہ پانچ فیصدکا نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم توانائی کی بہتر فراہمی اور امن و امان کی تسلی بخش صورتِ حال نے صنعتی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ صنعتی ترقی میں چھ اعشاریہ چار فیصد اضافہ ہوا۔ جب کہ خدمات کے شعبے نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اسحاق ڈار کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 5.5 فیصد تھا جو حکومت حاصل نہیں کر سکی اور گزشتہ مالی سال میں یہ نمو 4.7 رہی۔ صنعتی شعبے میں تعمیرات اور توانائی نے توقعات سے بھی بہتر کارکردگی دکھائی۔ تعمیرات کی نمو میں 13.10فیصد کا اضافہ ہوا۔ ریلوے میں بھی تیرہ اعشاریہ آٹھ فیصد بہتری ہوئی۔ ہول سیل میں چار اعشار یہ سات فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر 21.60 بلین ڈالر رہے۔ تجارتی خسارہ ایک ارب باون کروڑ ڈالر رہا۔ درآمدات کا حجم 32.72 بلین ڈالر رہا۔
وزیرِ خزانہ نے بتایاکہ چھ سو ارب روپے کا زرعی پیکج بھی دیا گیا۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں پانچ اعشاریہ چار فیصد کا اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی کے شعبے میں ہوئی۔ اسحاق ڈار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت میں دس اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا۔ اسحاق ڈارکے بقول ملک میں بے روزگاری کی شرح پانچ اعشاریہ نو فیصد رہی جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تھوڑی سے کم ہے۔
ماہرین کے خیال میں اعداد و شمار کا یہ جال زمینی حقائق کو بیان نہیں کرتا۔ پریسٹن یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ در حقیقت پاکستان میں مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’لوگوں کی قوتِ خرید کم ہو رہی ہے۔
حکومت کی مانیٹری، تجارتی اور صنعتی پالیساں اس طرح کی نہیں ہیں کہ وہ معاشی شعبے میں مجموعی طور پرکوئی بہتری لا سکے۔ تجارت کا توازن ہمارے حق میں نہیں ہے۔ لوگ اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ خوراک اور دوسری بنیادی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کی حالت خستہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی مصنوعی ہیں۔’’سب کو علم ہے کہ یہ ذخائر قرضے لے کر بڑھائے گئے ہیں، جو سود کے ساتھ ہمیں واپس کرنے ہیں۔ اس سے وقتی طور پر تو خود کو تسلی دی جا سکتی ہے لیکن معاشی نقطہء نظر سے یہ مستقبل میں آپ کے لیے بہت سارے اقتصادی مسائل پیداکریں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکڑ بکر نجم الدین نے کہا، ’’زرعی شعبے کا اس لیے برا حال ہے کہ آپ آہستہ آہستہ ساری سبسڈی ختم کر رہے ہیں۔ ڈبلیو ٹی او کے مطابق آپ سبسڈی نہیں دے سکتے لیکن اس کے برعکس یورپی و ترقی یافتہ ممالک اپنے کسانوں کو سبسڈی فراہم کر رہے ہیں۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ سید کامران نقوی کا کہنا تھا کہ ہم نئی مارکٹیں تلاش نہیں کر رہے۔ اسی لیے برآمدات سکڑ رہی ہیں، جس سے معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیںvalue added چیزیں بنانی چاہییں، اشیاء کی قیمتوں کو زیادہ مسابقانہ بنانا چاہیے اور توانائی کے بحران پر نہ صرف قابو پانا ضروری ہے بلکہ اسے سستا بھی کرنا چاہیے۔‘‘
یہ جائزہ ایک ایسے وقت میں پیش کی گیا جب مسلم لیگ نون کی حکومت اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اپنی حکومت کے تین سال پورے کر پائی ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف کی حکومت کو دو مرتبہ ہٹایا گیا۔ نواز حکومت کے تین سال پورے ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی سید آصف حسنین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ یہ تین سال پورے ہوگئے لیکن عام آدمی کو کیا ملا۔ نواز حکومت نے کچھ سڑکیں ضرور بنائی لیکن پانی، صحت، تعلیم، مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے کیا۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ تیل کی قیمتیں کم ہوئی لیکن انہوں نے جو عوام سے وعدے کیے تھے اس میں سے نوے فیصد پورے نہیں ہوئے۔‘‘