ترک کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی سے کاروباری حلقوں میں بےچینی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی ڈیوٹی دوگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ شروع ہونے والی اقتصادی جنگ میں انجام کار اُن کے ملک کو فتح اور امریکا کو شکست ہو گی۔ ایردوآن کا یہ بیان ملکی کرنسی’ لیرا‘ کی قدر میں شدید کمی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترک صدر نے اقتصادی جنگ کے نتائج سے بھی خبردار کیا ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ وہ امریکی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔
ہفتے کے دن اونیے شہر میں ایک عوامی خطاب سے انہوں نے کہا کہ امریکا اور ترکی کے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یوں ترکی نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کر سکتا ہے۔ ترکی میں قید امریکی پادری اور دیگر سفارتی معاملات پر ان دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ امریکا کو شرم آنا چاہیے کہ وہ ایک پادری کی خاطر نیٹو اتحادی ملک سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے ترکی کے خلاف اقدامات کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی ہے۔
لیرا کی قدر میں سولہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ذرائع بلاغ کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں یہ کمی ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کمی سے ترک معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُس کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی سے کاروباری حضرات کو شدید نقصان کا قوی امکان ہے۔ ایسے امکانات بھی ہیں کہ اگلے ہفتے کے دوران لیرا کی قدر اور گِر سکتی ہے۔
جمعہ دس اگست سے جس طرح لیرا کی قدر میں گراوٹ کا سلسلسہ شروع ہوا ہے، اُس سے لگنے والے معاشی جھٹکے ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے دوران محسوس کیے جاسکیں گے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بےچینی دیر تک رہنے کا امکان موجود ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر کو بھی یہ خطرات لاحق ہیں کہ ترک امریکی تنازعے کے منفی اثرات اُس تک پہنچ سکتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ رواں برس سے اب تک ترک کرنسی کی قدر میں چالیس فیصد کی کمی واقع ہو چکی ہے اور یہ مجموعی طور پر ترک اقتصایات کی داخلی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ کسی حد تک لڑکھڑائی ہوئی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ صدر ایردوآن ملکی کرنسی کو سنبھالنے کے حوالے سے کون کون سے اقدامات کرنے کی کوشش میں ہیں۔
لیرا میں کمی کی وجہ ترک اور امریکی حکومتوں میں پیدا شدہ سفارتی تنازعہ ہے۔ واشنگٹن اور انقرہ کی حکومتوں کے درمیان ترکی میں ایک امریکی پادری کی گرفتاری کشیدگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پادری کی رہائی کے معاملے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایسا امکان تھا کہ ترک نائب وزیر خارجہ کے دورہٴ امریکا کے موقع پر ہی کوئی بات آگے بڑھے لیکن بظاہر ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے درآمد کیے جانے والے فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی ڈیوٹی دوگنا کر دی ہے۔ اس اضافے کے بعد ترک کرنسی پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ نے ترک کرنسی کی قدر کم ہونے کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ ترکی کی کرنسی اُن کے مضبوط ڈالر کے سامنے گرنا شروع ہو گئی ہے اور ویسے بھی ان دنوں ترکی کے ساتھ تعلقاتٰ بھی بہتر نہیں ہیں۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔