’’اقتصادی پیکجز پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے ناکافی ہیں‘‘
29 اپریل 2020
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ بہتر انتظامات کے تحت سمارٹ لاک ڈاؤن پرعمل درآمد کیا جائے۔
اشتہار
سوال: پاکستان میں جزوی لاک ڈاؤن کیا معیشت کے لیے سود مند ثابت ہو رہا ہے؟
ڈاکٹر ندیم الحق: لاک ڈاؤن ضروری ہے اور نہیں بھی۔ لاک ڈاؤن سے معیشت تو متاثر ہو گی۔ پاکستان میں شہر پرانے طرز پر بنائے گئے ہیں۔ غریب عوام گلیوں میں اور کچی بستیوں میں رہتے ہیں وہاں سماجی فاصے پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔ ملک میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو مالی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ وہ راشن سٹور کر سکے۔ یہ لوگ دیہاڑی پر کام کر کے پیسہ کماتے ہیں اور پھر راشن خریدتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن کا نفاظ ممکن نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں جیسے کہ دکانیں کھولنے کے وقت کا تعین کیا جائے۔ ایک بازار میں کچھ دکانیں ایک وقت کھلیں اور کچھ دکانیں کسی دوسرے وقت۔ اگر کوئی علاقہ متاثر ہے توصرف ادھر لاک ڈاؤن کر دیا جائے۔ لیکن ایسا اسمارٹ لاک ڈاؤن بہت قابل انتظامیہ ہی کرا سکتی ہے۔
سوال: کیا پاکستان کورونا وائرس کی وبا سے اقتصادی طور پر درست انداز میں نمٹ رہا ہے؟
ڈاکٹر ندیم الحق: ساری دنیا کی طرح پاکستان کی حکومت بھی اس وقت ایک مشکل صورتحال میں کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم ابھی اس صورتحال کو سمجھ نہیں پا رہے، یہ معلوم نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کب ختم ہو گی اور نہ یہ علم ہے کہ عالمی سطح پر اقتصادی صورتحال کیا ہو گی، ایک بے یقینی ہے۔ ایسی صورتحال میں روایتی اقتصادی ماڈلز کام نہیں کریں گے۔ یہ عام حالات نہیں۔ دنیا کساد بازاری کی طرف جا رہی ہے۔ امریکا میں بے روزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
سوال: کیا حکومت کی جانب سے حالیہ اعلان کردہ بارہ ارب روپوں کا پیکج کچھ مددگار ثابت ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر ندیم الحق: اقتصادی پیکجز ایسی معیشتوں میں کام آتے ہیں جہاں پیداوار اور اقتصادی سرگرمیاں بہت تیز ہوں۔ یہ معیشت بہت کمزور ہے۔ یہاں روز لوگ حکومت سے لڑتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں یہ پیکج ریلیف فراہم نہیں کر پائے گا۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
تصویر: DW/H. U. R. Swapan
14 تصاویر1 | 14
سوال: کیا حکومت کچھ بنیادی اقدامات اٹھا سکتی ہے؟
ڈاکٹر ندیم الحق: اس وقت حکومت کو وہ کرنا چاہیے جو سابقہ حکومتوں کو دس سال پہلے کر دینا چاہیے تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیشت کا پہیہ چلنے دے۔ اقتصادی سرگرمیاں اصلاحات کی کمی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوئی ہیں۔ پاکستان مارکیٹس نہیں بنا پایا، یہاں ڈی ریگولیشن نہیں ہوئی، حکومتوں نے کبھی انتظامی اصلاحات نہیں کیے۔ عدلیہ کا وہ نظام ابھی بھی چل رہا ہے جو انگریزوں کی طرف سے دیا گیا تھا۔ اس سارے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عمارت کی بنیادیں بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ اور یہ کام اتنی جلدی نہیں ہوگا لیکن اس کام کا آغاز کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں ایسے کاروبار جنہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا جیسے چینی، بجلی وغیرہ، حکومت کو ان ''مونوپلیز‘‘ کو ختم کرنا ہو گا۔ اگر یہ کام شروع ہو جائے تو لوگوں کی مایوسی شاید کم ہو جائے۔ ابھی ایک ایسا نظام ہے جس میں لوگ کاروبار کرنے سے ڈر گئے ہیں۔ لہذا بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرروت ہے۔ اور یہ تبدیلی کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ندیم الحق سے یہ بات چیت ڈی ڈبلیو کی جانب سے بینش جاوید نے کی۔