1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی صدر کا داعش کے سابق گڑھ موصل کا دورہ

29 اگست 2021

فرانس کے صدر امانوئل ماکروں نے اتوار کو دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے سابق گڑھ موصل کا دورہ کیا۔ اس سے ایک روز قبل ، انہوں نے عراق میں اپنے فوجی تعینات رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

Irak Präsident Macron in Mosul
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP

فرانسیسی صدر نے عراق میں اپنے فوجی  تعینات رکھنے کے عزم کا اظہار عراق کی میزبانی میں ہفتہ 28 اگست سے شروع ہونے والی ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے کیا۔ بغداد میں مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کو کم کرنے پرتبادلہ خیال کی غرض سے ہونے والے اس اجلاس کا فرانس شریک میزبان بھی ہے۔

اجلاس کی اہمیت

عراق میں یہ علاقائی اجلاس ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب چار عشروں سے جنگ کی شکار ہندو کُش کی ریاست افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی افواج کا انخلا تکمیلی مراحل میں ہے تاہم افغانستان کی بدامنی اور وہاں کابل حکوت پر طالبان کے قبضے کے بعد سے تمام خطہ شدید تشویش اور پریشانی سے دوچار ہے۔ بغداد میں ہونے والے اجلاس کا موضوع ''دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سقوط کابل اور طالبان کے افغان حکومت پر قبضے کے علاقلائی اثرات‘‘ ہی ہے۔ 

داعش کو کمزور سمجھنے کی بھول نہ کریں، جرمن انٹلیجنس سربراہ

ہفتے کو اجلاس کے پہلے دن ماکروں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''امریکی چاہے اپنے لیے جو بھی فیصلہ یا انتخاب کریں، ہم عراق میں اپنی موجودگی برقرار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔‘‘ اس کانفرنس میں جن ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی، ان میں مشرق وسطیٰ کی علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے دو دیرینہ حریف ممالک ایران اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ عراق اوردیگر ممالک جن میں یمن، شام اور لبنان بھی شامل ہیں، کی سیاست پر ان دونوں ممالک کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔

امریکا کا عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان

28 اگست کو بغداد میں منعقد ہونے والی کانفرنستصویر: Martin Ludovic/abaca/picture alliance

موصل کا دورہ

اتوار کو فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں عراق کے ایک ایسے شہر کا دورہ کر رہے ہیں جو سُنی مسلم اکثریتی آبادی والا شہر ہے جو دہشت گرد گروپ داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے قبضے میں رہ چکا ہے۔ اسے 2017ء میں داعش کے قبضے سےچھڑایا گیا تھا۔ موصل دراصل عراق کا ایک متنوع نسلی اور کثیرالمذہبی برادریوں پر مشتمل قدیم شہر ہے۔ موصل میں قدیم مسیحی برادری بھی آباد رہی ہے۔ داعش نے اس شہر کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد جہاں شیعہ اور دیگر مسلم اقلیتوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، وہاں مسیحی برادری بھی اسلامک اسٹیٹ کے غیر انسانی رویے، ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور اپنے آبائی علاقے سے بے دخلی کا شکار رہی ہے۔ فرانسیسی صدر کے موصل کے دورے کو وہاں کی مسیحی برادری کے ساتھ ہمدردی اور ان کی حمایت کے اظہار کی تجدید کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔  ماکروں موصل کے مشہور زمانہ چرچ ‘‘Our lady of the hour’’ کا دورہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس تاریخی کلیسا کی عمارت کو اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو بحال کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

فرانسیسی صدر موصل یونیورسٹی کا دورہ بھی کر رہے ہیں جہاں ان کی ملاقاتیں نوجوان عراقیوں بشمول تاجروں اور طلبا کے ساتھ طے ہیں۔

داعش کے برطانوی جہادیوں کی سماعت کے لیے امریکا منتقلی

ماکروں کا Our Lady of the Hour Church کا دورہتصویر: Ludovic Marin/AFP

ماکروں کا 'تہذیبی پیغام‘

فرانس مشرق وسطیٰ کے اس خطے میں فرانسیسی زبان میں درس و تدریس دینے والے اسکولوں کی مالی اعانت کرتا ہے جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مسیحیوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کی حالت زار کو بہتر بنانا ہے۔ اس تناظر میں عراق کے دورے پر گئے ہوئے فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں نے کہا، ''یہ پیغام تہذیبی ہے بلکہ جیو پولیٹیکل بھی ہے۔ اگر ان اقلیتی برادریوں کا احترام نہ کیا گیا تو عراق میں کوئی توازن نہیں رہے گا۔‘‘

ماکروں کے موصل کے دورے کے دوران وہاں کی مشہور 'النوری مسجد‘ کا دورہ بھی ان کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ یہی مقام ہے جہاں سے بیٹھ کر اسلامک اسٹیٹ کے لیڈر ابو بکر البغدادی نے 2014 ء میں ' خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

ماکروں جمعے کے روز عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے ہمراہ شمالی بغداد کے ضلع کاظمیہ میں شیعہ مسلمانوں کی مقدس زیارت امام موسیٰ کاظم کے روزے پر بھی گئے تھے۔ کسی فرانسیسی صدر کا اس مقدس مقام کا یہ پہلا دورہ تھا۔

’خلافت‘ کا خاتمہ، داعش کے جہادیوں کا رُخ افغانستان کی طرف

ماکروں نے عراق میں اقلیتی برادریوں کیساتھ برابری کے سلوک پر زور دیاتصویر: Ludovic Marin/AFP

صدر ماکروں عراقی کردستان کے خود مختار علاقے اربیل بھی جائیں گے۔ وہاں فرانسیسی اسپیشل فورسز کے ' کیمپ گرانیئر‘ کے دورے کے بعد ان کی ملاقات کردش صدر نچیروان بارزانی اور ان کے پیشرو مسعود بارزانی سے طے ہے۔ ماکروں آئی ایس یا داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے  پیشمرگا جنگجوؤں کے خاندان سے بھی ملیں گے اور ان جہادیوں کے خلاف کردوں کی جنگ و جدو جہد کو بھی خراج تحسین پیش کریں گے۔

ک م / ا ب ا ) اے ایف پی ،روئٹرز(

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں