یہ سب خیالات میں پیدا ہوتے ہی ساتھ نہیں لے کر آیا تھا، یہ میرے ذہن میں بٹھائے گئے تھے، یہ خیالات میں نے اسکول سے سیکھے، مسجد سے سیکھے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھے۔
جب تک پاکستان میں تھے، ہمیشہ مسیحیوں کو اچھوت ہی سمجھا، اگر کسی نے ان کو گالی بھی دی تو ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کئی مرتبہ دیکھا کہ اگر کسی نے دوسرے کو گالی دینا ہوتی تو وہ اسے پنجابی میں عیسائی کہہ کر پکارتا۔
میں بارہویں جماعت تک پاکستان میں رہا اور زندگی بھر کبھی یہ نہیں سنا کہ آپ نے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کیسے کرنا ہے، ان کے حقوق کیا ہیں، انہیں کن ناموں سے نہیں پکارنا، ان کو بار بار مسلمان کرنے کی کوشش کریں تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
گلی میں چاچا بشیر مسیحی صفائی کا کام کرتے تھے، ان کے ساتھ سلام دعا تھی، لیکن یہ نجی نوعیت کی تھی۔ امی جی انہیں کھانا اور چائے پیش کیا کرتی تھیں لیکن اماں جی نے ان کے برتن الگ ہی رکھے ہوئے تھے۔
جرمنی آیا تو میں خود اچانک ایک اقلیت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہاں میری عید تھی لیکن باقی سبھی کی نہیں تھی، یہاں میں ایک ''اچھوت‘‘ تھا، باقی سب غیر مسلم تھے۔ لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی، جب میں یہاں بالکل تنہا تھا اور مجھے سب سے پہلا سہارا یہاں جرمن زبان پڑھانے والے اس استاد نے دیا، جو پروٹسٹنٹ پادری بھی تھا۔
اس استاد نے مجھے ایک ہوسٹل میں رہائش بھی لے کر دی، میرے لیے جرمن زبان کا بندوبست بھی کیا، مجھے امی ابو سے ملنے پاکستان جانا تھا اور ٹکٹ کا بندوبست بھی کروایا۔ لیکن اس انسان نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا یا محسوس کروایا کہ تم مسلمان ہو اور ہم سے الگ ہو یا تم مسیحت اختیار کر لو۔ بلکہ اس نے خود مجھے شہر کی مساجد کے ایڈریس فراہم کیے کہ تم نے مسلمانوں سے ملنا ہو تو یہاں جایا کرو۔
اسی طرح ایک دن عید تھی۔ تب یہاں عید والے دن کی چھٹی نہیں ہوتی تھی، جرمنی میں یہ قانون ابھی چند برس پہلے ہی منظور ہوا ہے کہ مسلمان بچے اور دیگر ملازمین عید والے دن چھٹی لے سکتے ہیں۔
میں کلاس میں تھا کہ سوشیالوجی کے پروفیسر سے میں نے کہا کہ آج ہماری عید ہے اور میں عید کی نماز پڑھنے جانا چاہتا ہوں۔ اس نے فورا کہا کہ جاؤ، میں تمہیں ای میل سے لیکچر بھیج دوں گا، تم مجھے بھلا کل بتا دیتے؟
اسی طرح زمانہ طالب علمی میں مجھے ایک کیفے میں نوکری ملی۔ میں جمعرات اور جمعے کو اس کافی شاپ میں ملازمت کرتا تھا۔ ابھی دوسرا یا تیسرا ہی جمعہ تھا کہ ایک دن میرے چہرے پر پریشانی دیکھ کر جرمن مالکن نے کہا کہ امتیاز سب خیریت ہے؟
میں نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں، یہ تیسرا جمعہ ہے، میں جمعہ پڑھنے نہیں جا سکا تو دل میں ایک عجیب سی کش مکش ہے۔ وہ فورا بولی کہ پریشان مت ہو، یہ گھنٹہ میں تمہاری جگہ کام سنبھالا کروں گی، تم اپنا جمعہ پڑھ کے آیا کرو۔ پھر جب تک میں وہاں کام کرتا رہا، اس خاتون نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔
ابھی چار برس پہلے کی بات ہے۔ مجھے ترک مسجد کے باہر جرمن میاں بیوی ملے۔ ان کے ساتھ ایک پاکستانی مہاجر لڑکا بھی تھا۔ یہ لڑکا غیرقانونی طریقے سے جرمنی آیا تھا لیکن عمر ابھی اٹھارہ برس سے کم تھی۔ جرمن قانون یہ ہے کہ اٹھارہ برس سے کم عمر مہاجرین بچوں کو خواہش مند جرمن خاندانوں کے حوالے کیا جاتا ہے کیوں کہ مہاجر کیمپوں میں ایسے چھوٹے بچوں کے استحصال کا خطرہ ہوتا ہے۔
وہ جرمن اس پاکستانی لڑکے کو باقاعدہ مسجد لائے کیوں کہ وہ مسلمان ہے اور وہ اپنے ہم مذہبوں سے مل سکے۔ میری گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ جرمن میاں بیوں نے ایک مصلہ اور قرآن بھی خرید کر دیا ہے تاکہ وہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکے۔
ایسا نہیں ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کو کبھی نفرت انگیز جملوں کا حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہاں بھی انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند موجود ہیں، جو مساجد کے دیواروں پر غلط کلمات لکھ جاتے ہیں، جو مسلم خواتین پر فقرے کستے ہیں، جو دیگر مذاہب یا رنگ و نسل کے لوگوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن اس چھوٹے سے طبقے کے خلاف باقی ملکی نظام، مذہب، حکومت اور لوگ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
یہاں سرکاری اداروں میں سب برابر ہے، کبھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ تم مسلمان ہو تو تمہیں یہ حق حاصل نہیں ہے، یا تم لوگ ایک الگ لائن بنا لو، یا تمہیں کبھی کوئی طنز کا نشانہ بنائے۔ یہاں تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں اور اتنے یکساں ہیں کہ آپ کو ایسے حقوق اسلام کے قلعے سعودی عرب، یو اے ای، ایران یا کسی دوسرے مسلم ملک میں بھی نہیں ملتے۔ پولیس یا عدالت کی مجال تک نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے یا آپ کو کسی مقامی جرمن پر سبقت دے، قانون سب کے لیے برابر ہے اور ایسا نظر بھی آتا ہے۔
میں جب پہلی مرتبہ جرمنی سے واپس گیا تھا تو یقین جانیے محلے میں صفائی کرنے والے لڑکوں کے بارے میں میرا نظریہ ہی بدل چکا تھا۔ مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اسی طرح اگر جرمنی میں صفائی کا کام صرف ہم جیسے مسلمانوں یا غیر ملکیوں کے لیے رکھ دیا جائے تو میں کیسا محسوس کروں گا؟ اگر مجھے بار بار مسلمان ہونے کا طعنہ دیا جائے تو میری عزت نفس کو کتنی ٹھیس پہنچے گی؟ اگر مجھے ہر وقت یہ خوف ہو کہ میرے گھر کو کبھی بھی کوئی جھتہ آگ لگا دے گا تو میں خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتا؟ اگر یہ شرط رکھ دی جاتی کہ تم مسیحی ہو جاؤ تو پھر تمہاری مدد کی جائے گی تو یہ کتنا بڑا ظلم ہوتا؟
اگر مجھے ملنے والے یہ کہہ دیتے کہ تم ہم جیسی عزت نہیں رکھتے، ہم تمہارے برتن الگ رکھ رہے ہیں تو میں دل ہی دل میں کتنا بے بس اور لاچار محسوس کرتا؟
جرمنی میں صرف چھ ماہ گزارنے کے بعد میرے دل میں اقلیتی لوگوں کے لیے ایک الگ ہی عزت و احترام تھا۔ اگر انسانیت نہیں ہے، آپ واقعی پتھر دل ہیں تو پھر آپ بھی کسی دن اقلیت بن کر دیکھیے، آپ کو اپنے اردگرد موجود اقلیتی افراد کے جذبات، ان پر کسے جانے والے فقروں، ان کے گھر مسمار کرنے، عبادت گاہوں کو جلانے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا دکھ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔