اقوامِ عالم نے تاریخی ماحولیاتی معاہدے کی منظوری دے دی
12 دسمبر 2015 اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد کردہ بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں شامل 195 ممالک نے عالمی ماحولیاتی معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ اس طرح زمینی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے میں مدد ملے گی، جو دنیا بھر میں سیلابوں اور طوفانوں کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں اور جن سے سیارے، انسانیت اور عالمِ حیوانات و نباتات تک کو خطرات لاحق ہیں۔
اس معاہدے کی منظوری کے وقت فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیوس نے کہا، ’’میں اس کمرے میں دیکھ رہا ہوں کہ ردعمل مثبت ہے اور کسی کوئی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پیرس ماحولیاتی معاہدہ منظور کیا جا چکا ہے۔‘‘
اس سے قبل عالمی طاقتوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمینی درجہء حرارت کو روکنے کے لیے ایک عالمی معاہدے کے لیے پیش کیے جانے والے مسودے کے حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہونے والے اس اجلاس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اجلاس میں شریک 195 اقوام اس معاہدے کو منظور کر لیں گی۔
اس معاہدے کا مسودے فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فابیوس نے پیش کیا۔ یہ تاریخی مسودہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ اگر اس سلسلے میں عالمی برادری کوئی متفقہ معاہدہ طے نہیں کر پائی تو آئندہ نسلیں ’ہمیں کبھی معاف نہیں‘ کریں گی۔‘
پیرس میں گزشتہ کئی روز سے جاری ان مذاکرات میں ترقی پزیرممالک کی جانب سے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کو معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا اور متعدد امور پر امریکا سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی شدید اعتراضات تھے۔
لوراں فابیوس نے قریب پوری رات جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے کردہ مسودے کو ہفتے کی صبح دیر گئے اجلاس میں شریک مندوبین کے حوالے کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا، ’’مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم واقعی اس عزم کے ساتھ آئے ہیں کہ ہم ایک معاہدے تک ضرور پہنچیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ طے پا گیا، تو زمینی تاریخ کا یہ ایک تاب ناک موڑ ہو گا۔
اس مسودے کے مطابق طے کردہ اہداف کا اطلاق سن 2020 سے شروع ہو جائے گا اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے درمیان اس بحث کا خاتمہ بھی ہو جائے گا، جس میں ترقی پزیر ممالک کا موقف ہے کہ ایسی کسی ڈیل کی صورت میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترقی پزیر ممالک کس حد تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار ہیں۔ اس کئی ٹریلین ڈالر کی مہم کے تحت زمینی درجہء حرارت میں اضافے کی باعث گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں رفتہ رفتہ کمی کی جائے گی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب بڑھا جائے گا۔
عالمی معاہدے کے اس خاصے پیچیدہ مسودے کی تقسیم کے بعد اجلاس میں شریک وزراء نے دوبارہ گروپوں کی صورت میں صلاح مشوروں کا آغاز کیا۔ تاہم متعدد اہم ممالک کی حمایت سے طے پانے والے مسودے کو پیش کرنے کے لیے جب فرانسیسی وزیرخارجہ تقریر کے لیے پہنچے تو تمام اقوام کے وزراء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور اس والہانہ استقبال سے ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ اب یہ معاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے منظور ہو جانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سن 2010میں کوپن ہیگن میں بھی عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، تاہم عالمی رہنما اس سربراہی اجلاس میں کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہو گئے تھے۔