1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ اور مسئلہ فلسطین تاریخ کے آئینے میں

Imtiaz Ahmad28 نومبر 2012

محمود عباس جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بہتر اسٹیٹس حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں گے۔ فلسطین کونان ممبر آبزرور کا درجہ حاصل ہونے کی صورت میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

تصویر: AP

29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ پروشلم کے علاقے کے لیے اسپیشل انٹرنیشنل زون تشکیل دیا گیا۔ یہودیوں نے اس اقدام کی قبول کیا جبکہ عربوں نے اسے مسترد کر دیا۔

14 مئی 1948 کو برطانوی فوجیوں کے نکل جانے کے بعد اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں عرب ریاستوں کے ساتھ آٹھ ماہ طویل جنگ کا آغاز ہوا۔ اس دوران 400 فلسطینی دیہات جلا دیے گئے جبکہ سات لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ افراد ہمسایہ مغربی کنارے، غزہ پٹی اور عرب ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

11 مئی 1949ء  کو اسرائیل کو اقوام متحدہ کے رکن ملک کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔

22 نومبر 1967 کو سلامتی کونسل میں وہ قرار داد منظور کی گئی، جس کے تحت اسرائیل کو اُن مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کا کہا گیا، جن پر  اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔ اس قرار داد پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

25 ستمبر 1971ء کو سلامتی کونسل نے یروشلم کی حثیت تبدیل کرنے پر اسرائیل کی مذمت کی۔

13 نومبر 1974 کو یاسر عرفات کی قیادت میں ’فلسطین لبریشن آرگنائزیشن‘ کو اقوام متحدہ میں ایک مبصر کی حثیت حاصل ہوئی۔ آج تک فلسطینیوں کے پاس یہی حثیت ہے۔

12 مارچ 2002ء کو سلامتی کونسل کی ایک قرار داد میں پہلی مرتبہ فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا۔ 

19 نومبر 2003ء  کو سلامتی کونسل میں امن منصوبے کے لیے ایک روڈ میپ ’’اسرائیل، فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل‘‘ کی توثیق کی گئی۔

16 دسمبر 2008ء کو سلامتی کونسل میں پانچ برس کے وقفے کے بعد مشرق وسطیٰ امن عمل کی حمایت میں پیش کردہ قرار داد کو منظور کیا گیا۔

18 فروری 2011ء کو پہلی مرتبہ امریکا کی نے ایک ایسی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا گیا، جس میں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ روایتی طور امریکا سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قرار دادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے۔

23 ستمبر 2011ء کو اسرائیل فلسطین تنازعے کے تناظر میں پہلی مرتبہ محمود عباس کی طرف سے اقوام متحدہ میں یہ درخواست پیش کی تھی کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے لیکن یہ درخواست ابھی تک سلامتی کونسل میں نہیں لائی گئی۔ یہ ڈر ہے کہ امریکا اسے ویٹو کر دے گا۔

31 اکتوبر 2011ء کو پیرس میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی طرف سے فلسطین کو مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا، جس کے بعد اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مخالفت کی چنگاریاں پیدا ہوئیں۔

29 نومبر 2012ء کو اسرائیل کے قیام کے 65 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اسی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے قیام کے حق میں ووٹ دیا گیا تھا۔ اب اسی دن محمود عباس اقوام متحدہ میں  نان ممبر آبزور اسٹیٹ کا درجہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔

مسلم دنیا کے علاوہ کئی دیگر یورپی ملکوں نے فلسطین کے حق میں ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں اسپین، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں تاہم جرمنی نے ایسا نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہسپانوی وزیر خارجہ خوسے مانویل گارسیا مارگایو کا کہنا ہے کہ میڈرڈ حکومت جنرل اسمبلی میں فلسطین کی کوشش کی حمایت کرے گی کیونکہ یہ امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

ia/ah(AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں