اقوام متحدہ ليبيا ميں پھنسے تارکين وطن کی مدد کو آن پہنچا
عاصم سلیم
10 اکتوبر 2017
انسانوں کی اسمگلنگ کے گڑھ مانے جانے والے ليبيا کے شہر صبراتہ ميں اسمگلروں کے مختلف گروپوں کے درميان مسلح تصادم ميں پھنس جانے والے سينکڑوں پناہ گزينوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے ہنگامی بنيادوں پر مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
اشتہار
صبراتہ ميں پچھلے جمعے کے روز جھڑپوں کے خاتمے کے بعد سے اب تک قريب چار ہزار افراد کو غير سرکاری کيمپوں سے باقاعدہ رہائش گاہوں ميں منتقل کيا جا چکا ہے۔ ان ميں حاملہ عورتيں، نومولود بچے اور بيمار افراد بھی شامل ہيں۔ يہ اطلاع بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کی جانب سے دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے مطابق مختلف گروپوں کے درميان لڑائی کے سبب صبراتہ ميں پھنس جانے والے مہاجرين کی تعداد لگ بھگ چھ ہزار تھی۔
ليبيا کا ساحلی شہر صبراتہ کافی عرصے سے يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کا مرکز رہا ہے۔ افريقی ممالک کے مہاجرين انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے اسی شہر سے بحيرہ روم کے راستے اٹلی و ديگر يورپی رياستيں پہنچتے رہے ہيں۔ تاہم طرابلس ميں اقوام متحدہ کی حمايت يافتہ حکومت اور وہاں سرگرم ايک مسلح گروہ کے مابين جولائی ميں طے ہونے والے ايک معاہدے کے بعد سے يورپ کی طرف غير قانونی ہجرت ميں واضح کمی ہوئی ہے۔ اس معاہدے کی شرائط ميں گروہ کو پابند کيا گيا تھا کہ وہ غير قانونی ہجرت کو روکے۔ اسی کے نتيجے ميں وہاں سرگرم متعدد گروہوں کے مابين تصادم شروع ہو گيا۔ اس پورے معاملے کے بيچ پھنس جانے والے مہاجرين صبراتہ ميں غير سرکاری کيمپوں ميں پھنس کر رہ گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی مداخلت کے نتيجے ميں صبراتہ ميں محصور تارکين وطن کو وہاں سے زوارہ منتقل کر ديا گيا ہے۔ يہ شہر صبراتہ سے پچيس کلوميٹر کے فاصلے پر ہے اور مہاجرين نے يہ سفر پيدل چل کر طے کيا۔ زوارہ کی ايمرجنسی کميٹی کے سربراہ صديق الجياش کے بقول مہاجرين مختلف گروپوں ميں اس شہر تک پہنچے۔ انہوں نے بتايا کہ وہاں موجود مہاجرين کو خوراک کی شديد قلت کا سامنا ہے۔
بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کی ليبيیا میں قائم شاخ کے سربراہ کے بقول وہ اس مسلح تنازعے کے نتيجے ميں متاثر ہونے والے پناہ گزينوں کے ليے فکر مند ہيں۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔