ایران اور سعودی عرب کے ایک دوسرے پر ’جرائم‘ کے الزامات
24 ستمبر 2020
ایران نے سعودی عرب پر حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے ’جرائم‘ دوسروں کے سر تھوپنے کا الزام عائد کیا ہے۔ قبل ازیں اقوام متحدہ میں سعودی عرب نے ایران پر ’توسیع پسندی اور دہشت گردی‘ کا الزام عائد کیا تھا۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بدھ 23 ستمبر کو سعودی شاہ سلمان نے ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ہی گزشتہ برس 'سعودی آئل فیلڈز پر حملے‘ کیے تھے۔ اپنے ریکارڈ شدہ بیان میں انہوں نے تہران حکومت پر 'توسیع پسندانہ سرگرمیوں‘ کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اسی مقصد کے لیے یہ ملک 'دہشت گردوں‘ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
آج جمعرات کو ایران کی جانب سے ان الزامات کا جواب مزید سختی سے دیا گیا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا تھا، ''سعودی عرب برسوں سے الزامات عائد کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ وہ حقائق سے فرار کی کوشش میں رہتا ہے اور اپنے جرائم کا جواب نہیں دیتا۔‘‘
سعودی عرب نے الزام عائد کیا تھا کہ تہران حکومت ہی یمن کے حوثی باغیوں کو ہتھیار فراہم کر رہی ہے اور اسی نے سعودی آئل فیلڈز پر حملے کروائے تھے۔ ایران کی طرف سے ان الزامات کو مسترد اور ساتھ ہی ریاض حکومت پر یمن میں 'جنگی جرائم کا مرتکب‘ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سعید خطیب زادہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ''سعودی عرب خطے میں دہشت گردی کا مرکزی سپانسر ہے اور تکفیری دہشت گردانہ سوچ کا مرکز بھی۔‘‘ ایران تکفیری لفظ سنی جہادیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب کو عرب ممالک میں 'بد نصیب مخلوق‘ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ امریکی دباؤ پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔
سعودی عرب نے سن دو ہزار سولہ میں اس وقت تہران حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے، جب مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا تھا۔
ا ا / ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔