اقوام متحدہ میں ترک وطن کے عالمگیر معاہدے پر اتفاق رائے
14 جولائی 2018
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے ایک سو بانوے ممالک کے مابین ترک وطن کے ایک عالمگیر معاہدے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر ترک وطن کے عمل کو محفوظ اور منظم بنانا ہے۔ امریکا ان ممالک میں شامل نہیں۔
اشتہار
نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے ہفتہ چودہ جولائی کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق اس ’مائیگریشن پیکٹ‘ پر اتفاق رائے دراصل ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والے کٹھن مذاکرات کے بعد ایک ایسی مشترکہ دستاویز کی منظوری کی صورت میں ہوا، جس پر دنیا کے تقریباﹰ سبھی ممالک کے نمائندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس معاہدے کی اسی سال دسمبر میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے وزراء کے مراکش میں ہونے والے ایک اجلاس میں توثیق ابھی باقی ہے۔ عالمی ادارے کے رکن ممالک اس عماہدے پر عمل درآمد کے قانوناﹰ پابند نہیں ہوں گے لیکن اس معاہدے کی جنرل اسمبلی میں منظوری بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکا اس معاہدے میں شامل نہیں ہوا جبکہ ایک ملک، جس نے فی الحال اس دستاویز کی حمایت کر دی ہے، اس امکان پر غور کر رہا ہے کہ وہ اس عالمگیر معاہدے کے لیے اپنی تائید واپس لے لے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ عالمی سطح پر اس معاہدے کی تاریخی حیثیت کا ثبوت یہ ہے کہ یہ معاہدہ ایسی پہلی بین الاقوامی دستاویز ہے، جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کرہ ارض پر کسی بھی ملک سے ترک وطن کے عمل اور کسی بھی مہمان معاشرے میں تارکین وطن کی آمد کو محفوظ، منظم اور زیادہ بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
نیو یارک سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس عالمگیر معاہدے کا سب سے بڑا ممکنہ فائدہ یہ ہو گا کہ یہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے لیے قانونی ترک وطن کے کئی راستے کھول سکتا ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
عالمی ادارے کے سفارتی ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے ذریعے دنیا کے قریب 200 ممالک نے اپنے لیے جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ بین الریاستی سطح پر تعاون میں اضافہ کیا جائے اور قوموں اور ممالک کی خود مختاری کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترک وطن کے عمل کو تارکین وطن کے لیے محفوظ اور ان کے مہمان معاشروں کے لیے زیادہ منظم بنایا جا سکے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اگر یہ معاہدہ متفقہ طور پر منظور نہ ہو سکا تو اس کی وجہ صرف امریکا بنا۔ اس لیے کہ امریکا میں ٹرمپ حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں واشنگٹن کے اس معاہدے سے متعلق مذاکرات سے اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ تب امریکی سفارت کاروں نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس معاہدے کی ممکنہ دستاویز کے کئی حصے اور شرائط امریکا میں صدر ٹرمپ کی حکومت کی تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں سے متصادم تھے۔ جس ملک نے اس دستاویز کی منظوری کے بعد فوراﹰ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ اس معاہدے سے خارج بھی ہو سکتا ہے، وہ مشرقی یورپی ملک ہنگری تھا۔
روئٹرز کے مطابق اس عالمگیر معاہدے میں مجموعی طور پر 23 اہداف کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ترک وطن کے عمل کو تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرنے والے ممالک کے لیے ایک اہم موقع کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے معاہدے کی منظوری کو ایک ’بہت معنی خیز کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترک وطن کو کسی مسئلے کے طور پر دیکھنے کے بجائے ’ایک مثبت عالمگیر عمل‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 250 ملین یا 25 کروڑ انسان ایسے ہیں، جو اپنے لیے کسی نئے ملک یا معاشرے میں رہائش کی تلاش میں ہیں۔ ترک وطن کے لیے کوشاں انسانوں کی یہ تعداد موجودہ عالمی آبادی کا قریب تین فیصد بنتی ہے۔
م م / ع ا / روئٹرز، اے ایف پی
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔