اقوام متحدہ میں فلسطینی پرچم کشائی کے امکانات
4 ستمبر 2015فلسطینی اعلیٰ سفارتکار نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ 10 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ سے قوی امید کی جا رہی ہے کہ 193 قومیتوں پر مشتمل اس فورم میں فلسطینی پرچم لہرانے کی قرارداد اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لی جائے گی۔ اس بارے میں ریاض منظور کا کہنا تھا، ’’ ہمارے پاس ووٹ موجود ہیں اور ہم زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ اگر یہ قرار داد منظور ہو جاتی ہے تو اقوام متحدہ کے پاس 20 دن کا وقت ہو گا اس پرفیصلے کرنے کا اور یہی وہ وقت ہو گا جب فلسطینی صدر محمود عباس 30 ستمبر کو امریکا کے دورے پر ہوں گے تاہم منصور نے اس بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کیا کہ آیا محمود عباس کے دورے کے دوران فلسطینی پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہو گی یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہ وہ لمحات ہوں گے جو فلسطینیوں کی ایک علیحدہ آزاد ریاست کے قیام کی دیرینہ خواہش کو اُجاگر کر سکیں گے۔
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ریاض منظور کا کہنا تھا،’’ یہ ایک علامتی چیز ہے تاہم یہ فلسطینی ریاست کے ستونوں کو مضبوطی سے کھڑا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے ایک امید کی کرن ہوگی اور وہ یہ امید کر سکیں گے کہ عالمی برادری اب بھی آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی پرچم کشائی سے متعلق قرارداد کا مسودہ گزشتہ ہفتے پیش کیا گیا تھا۔ اس کی منظوری سے اقوام میں متحدہ میں لہرانے والے 193 ممبر ممالک کے پرچموں میں فلسطینی جھنڈے کا بھی اضافہ ممکن ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ فلسطین اور ویٹیکن سٹی دونوں ہی کو اقوام متحدہ میں غیر رکنی مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔
اُدھراقوام متحدہ متعین اسرائیلی مندوب نے رواں ہفتے اس پیش قدمی کی سخت مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر برائے اقوام متحدہ رون پروزور نے فلسطینیوں کے اس اقدام کو ’’ اقوام متحدہ میں آسان اور بے معنے اسکور کرنے کی کوشش قرار دیا ‘‘۔
دریں اثناء اسرائیلی سفیر نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون اور صدر رون کوٹوسا سے فلسطینیوں کی اس قرار داد کو بلاک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی پرچم لہرانے کا مطلب اقرام متحدہ کے آداب اور روایات کی خلاف ورزی ہوگا کیونکہ اس عالمی ادارے میں محض رکن ممالک کے پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ اُدھر یورپی ممالک اس بارے میں ووٹ دینے کے موضوع پر ابھی غور کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی دباؤ میں اس قرار داد کی ووٹنگ میں اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھیں۔