اقوام متحدہ میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہو گا، بھارتی فیصلہ
جاوید اختر، نئی دہلی
20 ستمبر 2019
پاکستان کی طرف سے کشمیر کے متنازعہ خطے کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر پوری شدت سے اٹھانے کی کوششوں کے برعکس بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اشتہار
بھارت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے اس کے زیر انتظام حصے کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ اس کا داخلی معاملہ ہے اور چونکہ اقوام متحدہ عالمی مسائل پر غور کرنے کا پلیٹ فارم ہے، اس لیے بھارت وہاں اپنی توجہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے 21 ستمبر کو دہلی سے امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ وہ 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
ان کی روانگی سے قبل بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے کیشو گوکھلے نے جمعہ بیس ستمبر کو میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نریندری مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر میں بھاتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے۔
گوکھلے کا کہنا تھا، ''آئین کی دفعہ 370 کا معاملہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ اس پر اقوام متحدہ میں کوئی بات نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ اور امریکا کے اپنے دورے کے دوران کشمیر اور آرٹیکل 370 پر کوئی توجہ نہیں دیں گے بلکہ وہ اپنی تقریر میں بدلتی ہوئی دنیا کے اہم امور بالخصوص کثیرالجہتی عالمی نظام سے بھارت کی توقعات اور اس میں نئی دہلی کے کردار کو نمایاں کریں گے۔ وزیر اعظم مودی اس بات پر توجہ مرکوز رکھیں گے کہ اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔"
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
جب بھارتی خارجہ سیکرٹری سے یہ کہا گیا کہ پاکستان نے تو کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر پوری شدت کے ساتھ اٹھانے کا اعلان کیا ہے، تو گوکھلے نے کہا، ''ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان اقوام متحدہ میں کیا کرنے یا کہنے جا رہا ہے۔ اگر پاکستانی وزیر اعظم اس مسئلے پر تقریر کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی مرضی۔ وہ بخوشی ایسا کریں۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔ بھارتی وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان امور پر توجہ مرکوز رکھیں گے، جو اس بین الاقوامی پلیٹ فارم کے لیے اہم ہے۔ ایک اہم ملک کی حیثیت سے اور اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر بھارتی وزیر اعظم ان امور کا ذکر کریں گے جن پر بھارت ترقی، سلامتی اور امن کے لیے عمل پیرا ہے۔‘‘
نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو بھارتی پارلیمان کے توسط سے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی شق 370 کے ختم کیے جانے کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکا جانے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے پاکستان نے بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو بھی آئس لینڈ کے ایک سرکاری دورے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بھارت نے پاکستان کے اس رویے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
جب بھارتی خارجہ سیکرٹری سے اس حوالے سے ایک سوال کیا گیا، تو ان کاکہنا تھا، ''جہاں تک فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا سوال ہے، تو یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کو اپنی فضائی حدود سے ہو کر پرواز کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اگر کوئی نارمل ملک ہوتا تو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرتا۔ امید ہے کہ پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس جلد ہو جائے گا۔"
کشمیر میں خاردار تاریں، چیک پوسٹیں اور ووٹنگ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر گزشتہ دو دہائیوں سے تنازعے میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ ان دنوں بھارت بھر میں انتخابات کا چرچا ہے، لیکن کشمیر کے عوام تیس اپریل کو ووٹنگ کے دن کچھ خاص پرجوش دکھائی نہ دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
سخت سکیورٹی
بھارت میں پولنگ کے ساتویں مرحلے میں کشمیر میں بھی ووٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر وہاں سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ پولیس نے پولنگ کے عمل میں خلل سے بچنے کے لیے چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ بہت سے لوگوں نے مسلمان علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبات اور پرتشدد کارروائیوں کے خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ نہ کیا۔ اس باعث ٹرن آؤٹ صرف 25.6 فیصد رہا۔
تصویر: Bijoyeta Das
فیصلہ اپنا اپنا
اس کے باوجود کچھ کشمیریوں نے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصویر سری نگر کی ہے جہاں ایک بزرگ شہری ووٹ ڈالنے کے بعد اپنی انگلی پر لگا سیاہی کا نشان دکھا رہے ہیں۔
تصویر: Bijoyeta Das
جوش و جذبے سے عاری
اپوزیشن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے حامی ووٹ ڈالنے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن سری نگر میں پولنگ کے موقع پر مجموعی طور پر بھارت کے دیگر علاقوں جیسا جوش و جذبہ دیکھنے میں نہ آیا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ویران گلیاں
ووٹنگ کے دن سری نگر کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔ تیس اپریل کو بیشتر دکانیں بند رہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں پر نہیں تھی۔ ریاستی دارالحکومت میں کرفیو کا سا سماں تھا۔
تصویر: Bijoyeta Das
ووٹر کم، فوجی زیادہ
کشمیر کے دیگر شہروں کے مقابلے میں سری نگر میں ٹرن آؤٹ کافی کم رہا۔ اس پولنگ اسٹیشن پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد ووٹروں سے زیادہ تھی۔
تصویر: Bijoyeta Das
پہلے استصوابِ رائے
متعدد کشمیری علیحدگی پسند گروپوں نے پولنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ سری نگر میں متعدد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے لیے استصوابِ رائے چاہتے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ بھارت کے خلاف نعرے بھی دکھائی دیے۔
تصویر: Bijoyeta Das
بے نیازی
سری نگر میں بچوں نے ہڑتال کے باعث اسکول بند ہونے کا خوب مزا لیا۔ وہ اپنے شہر اور ریاست میں پولنگ سے بے نیاز رہے اور انہوں نے عام پر طور پر مصروف رہنے والی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی۔
تصویر: Bijoyeta Das
7 تصاویر1 | 7
بھارت نے پاکستان کے اس رویے کے خلاف فی الحال کسی متعلقہ عالمی ادارے میں شکایت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے گوکھلے نے کہا، ''جہاں تک اس معاملے کو کسی بین الاقوامی تنظیم میں لے جانے کی بات ہے، تو ہم اس پر غور کریں گے۔ فی الحال ہمارا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ (پاکستان) بین الاقوامی سول ایوی ایشن تنظیم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کریں گے، تو ہم یقیناﹰ اس پر غور کریں گے۔‘‘
اس حوالے سے جموں وکشمیر اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹرآشوتوش بھٹناگر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دراصل پاکستانی رہنماؤں نے جموں و کشمیر سے متعلق اپنے ملک کے عوام کو جس طرح سات عشروں تک گمراہ کیا ہے، وہ غلط فہمی آئین کی شق 370 کے خاتمے کے مودی حکومت کے فیصلے سے دور ہو گئی ہے۔ اسی لیے پاکستانی حکومت اور فوج بھی پریشان ہیں اور دنیا بھر میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں تاہم انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔‘‘
بھٹناگر کا مزید کہنا تھا، ”پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں پوری دنیا کو اپنی سوچ کی حامی بنا لیں گے۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے، جو دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ وہ بدلی ہوئی عالمی صورت حال کو جتنا جلد سمجھ لیں، اتنا ہی اچھا ہو گا۔ بھار ت آج ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے اور کسی بھی ملک کے لیے بھارت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔"
بھارت میں مودی کی جیت کا جشن
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سن دو ہزار چودہ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے جیت سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اپوزیشن کی کانگریس جماعت کو صرف 51 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج ہیں لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نریندر مودی کی جماعت واضح برتری سے جیت جائے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
بی جے پی کو اکثریتی حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جماعت بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت سازی کرے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی تقریبا 50 سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں اور اس طرح نریندر مودی کی جماعت کے ہاتھ میں تقریبا 330 سیٹیں آ جائیں گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارت میں ان تمام تر ووٹوں کی گنتی آج تئیس مئی کو مکمل کر لی جائے گی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیرحتمی نتائج انتہائی ناقابل اعتبار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سن 2004ء کے ابتدائی خیر حتمی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن حتمی نتائج سامنے آنے پر کانگریس جیت گئی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے ایک علاقائی لیڈر نے ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا انڈیا ٹوڈے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Dave
دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی نے بدھ کے روز ان ابتدائی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اڑتالیس سالہ گاندھی کا اپنے حامیوں سے ٹویٹر پر کہنا تھا، ’’جعلی ابتدائی نتائج کے پروپیگنڈا سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ابتدائی نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہول گاندھی کو ریاست اترپردیش میں امیٹھی کی آبائی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نسلوں سے گاندھی خاندان اس حلقے سے منتخب ہوتا آیا ہے۔