اقوام متحدہ کا بنگلہ دیش میں انتخابات کی چھان بین کا مطالبہ
5 جنوری 2019
اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں تیس دسمبر کو ہوئے قومی انتخابات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کی شیخ حسینہ کو مسلسل تیسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا تھا۔
اشتہار
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ہفتہ پانچ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں مکمل کیے گئے انتخابی عمل کی غیر جانبدارانہ چھان بین کا مطالبہ ملکی اپوزیشن اتحاد کے ان الزامات کی روشنی میں کیا ہے کہ اس الیکشن میں دانستہ تشدد کیا گیا تھا اور کئی انتخابی حلقوں میں وسیع تر دھاندلی بھی کی گئی تھی۔
گزشتہ اتوار کے روز ہونے والے ان انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ اور اس کی حامی سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے پارلیمان کی 90 فیصد سے زائد سیٹیں جیت لی تھیں۔ ملکی اپوزیشن اتحاد کا الزام ہے کہ یہ کامیابی انتخابی دھاندلی، بے قاعدگیوں اور اس تشدد کے نتیجے میں حاصل کی گئی تھی، جس نے کم از کم بھی 19 افراد کی جان لے لی تھی۔
سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی ان انتخابی نتائج کو سرے سے مسترد کر چکی ہے جبکہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کا دعویٰ ہے کہ اس الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں کی گئی تھی اور انتخابی عمل ’شفاف اور پرامن‘ تھا۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے اب کہا گیا ہے، ’’ہم حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی، تشدد کے واقعات اور انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مکمل طور پر فوری، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں، جن کے باعث کئی انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور جن کے ذمے دار افراد کو ان کی سیاسی وابستگیوں سے بالکل قطع نظر قانونی طور پر جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔‘‘
حالیہ ملکی انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی بنگلہ دیشی پارلیمان کا اولین اجلاس جمعرات تین جنوری کو ڈھاکا میں ہوا تھا، جس میں شیخ حسینہ سمیت ان کی پارٹی کی قیادت میں قائم سیاسی اتحاد کے تمام نو منتخب ارکان نے حصہ لیا تھا۔ اپوزیشن کے سبھی نو منتخب ارکان، جن کی تعداد صرف سات ہے، اس اولین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
بنگلہ دیشی اپوزیشن کا تیس دسمبر کی رائے دہی کے بعد سے اب تک یہی الزام ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ حکمران سیاسی اتحاد پارلیمان کی 90 فیصد سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب رہا تھا۔ اپوزیشن مسلسل یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ ملک میں نئے سرے سے قطعی آزادانہ انتخابات کرائے جانا چاہییں۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالیہ انتخابی عمل کی آزادانہ چھان بین میں بڑھ چڑھ کر اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے۔
قبل ازیں جمعرات تین جنوری کو ہی نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہ الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیش میں ’حالیہ عام انتخابات سے پہلے کا ماحول تشدد، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مخالفین کا سیاسی پیچھا کرنے اور آزادی رائے کے بنیادی حق کو انتہائی محدود کر دینے سے عبارت تھا‘۔
م م / ع ح / روئٹرز
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔