ہانگ کانگ سکیورٹی قانون پر آزادانہ نظرثانی کا مطالبہ
4 ستمبر 2020
انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے چین سے کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے اس کے قومی سکیورٹی قانون نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے بیجنگ کو تحریرکردہ ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے لیے سکیورٹی قانون نہ صرف بنیادی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے بلکہ یہ قانون، اظہار رائے کی آزادی پر بھی قدغن لگاتا ہے اور اس کا استعمال سیاسی سرگرمیوں میں شامل افراد کو سزائیں دینے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔
جمعے کے روز جاری اس مشترکہ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نیا قانون ہانگ کانگ کے ججوں، وکلاء اور اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
نئے قانون میں علیحدگی پسندی، تخریب کاری، دہشت گردی اور غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے نفاذ نے بہت سارے مظاہرین اور سماجی اور سیاسی کارکنوں کو خاموش کردیا ہے۔ بیجنگ اور ہانگ کانگ میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ قانون علاقے کے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ضرور ی تھا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی طرف سے لکھے گئے خط میں قومی سکیورٹی قانون کو بنیادی آزادی کے لیے خطرہ قراردیتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ قانون ' اپنی رائے اور خیالات کے اظہار اور پرامن اجتماعات کی آزادی کے حقوق پر ناقابل تلافی منفی اثرات مرتب کرے گا۔“
اقو ام متحدہ نے اس قانون کی مکمل اور آزادانہ طورپر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ چین انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
10 تصاویر1 | 10
14 صفحات پر مشتمل یہ خط اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے تحفظ اور انسداد دہشت گردی سے متعلق خصوصی نمائند ہ فینوالا نی اولین اور اقوام متحدہ کے دیگر چھ سفارت کاروں نے بھیجا ہے۔ خط پر دستخط کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ہانگ کا نگ کا سکیورٹی قانون بین الاقوامی قانون کے تحت چین کی قانونی ذمہ داریوں پر پورا نہیں اترتا ہے کیوں کہ اس قانون میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بعض امور کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا ”بنیادی آزادیوں پر پابندی عائد یا محدود کرنے، نظریات اور رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع پر پابندی عائد کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔"
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہانگ کانگ میں حقوق انسانی کے علم برداروں کی'بہت سی جائز سرگرمیوں‘ کو بھی غیر قانونی قرار دے سکتا ہے۔ خط پر دستخط کرنے والوں نے چین سے کہا ہے کہ وہ اس بات کی بھی وضاحت کرے کہ وہ اس قانون کو کس طرح ’ماورائے خطہ دائرہ اختیار‘ میں نافذ کرے گا کہ اس سے شہری او رسیاسی حقوق سے متعلق اس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی جس پر بیجنگ نے دستخط کر رکھے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ کے نئے سکیورٹی قانون میں دہشت گردی کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعریف سے ہم آہنگ نہیں ہے کیوں کہ چین نے دہشت گردی کی تشریح میں ٹرانسپورٹ سہولیات جیسی چیزوں کے نقصان کو بھی دہشت گردانہ کارروائی کے زمرے میں شامل کردیا ہے۔
خیال رہے کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے متعدد ملکوں نے عالمی مالیاتی مرکز سمجھے جانے والے ہانگ کانگ کے ساتھ باہمی معاہدے ختم کرلیے ہیں۔ اس میں امریکا کی طرف سے تجارتی مراعات کے علاوہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی کی طرف سے حوالگی معاہدے شامل ہیں۔
ج ا/ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
ہانگ کانگ کی روشنیوں میں گم ہوتا نیون سائنز کا آرٹ