اقوام متحدہ کی ’ایک پوری انسانی نسل کے المیے‘ کے خلاف تنبیہ
4 اگست 2020
کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا کو ایک ایسے تعلیمی بحران کا سامنا ہے، جو تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اقوام متحدہ نے اسے ’ایک پوری نسل کا المیہ‘ قرار دیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق یہ وبا دنیا بھر میں تعلیمی شعبے کو ایک بےنظیر بحران سے دوچار کر چکی ہے۔ اس دوران دنیا کے 160 سے زائد ممالک میں لاکھوں اسکول بند کر دیے گئے اور ایک بلین سے زیادہ طلبا و طالبات کے لیے تعلیمی سلسلہ معطل ہو چکا ہے۔
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ کووِڈ انیس کی عالمی وبا کی وجہ سے تعلیمی شعبے میں بحرانی حالات 'ایک پوری نسل انسانی کے لیے تباہ کن اثرات‘ کا سبب بن سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وبا کے نتیجے میں نہ صرف ایک بلین سے زائد بچوں کا تعلیمی کیریئر بری طرح متاثر ہو رہا ہے بلکہ کم از کم چالیس ملین چھوٹے بچے ایسے ہیں، جن کا اسکولوں میں داخلے سے پہلے کا ایک سال بھی ضائع ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے یہ چار کروڑ بچے وہ ہیں، جنہیں اس سال کنڈر گارڈنز اور نرسریوں میں بنیادی تربیت کے بعد پرائمری اسکولوں میں داخل ہونا تھا۔
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔
تصویر: Reuters/I. Alvarado
12 تصاویر1 | 12
انٹونیو گوٹیرش نے اقوام متحدہ کی 'ہمارا مستقبل بچاؤ‘ یا Save our Future کے نام سے ایک بین الاقوامی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا، ''آج کی دنیا میں شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک پوری نسل کو درپیش اس المیے سے بہت زیادہ انسانی صلاحیتیں ضائع ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ اسی وجہ سے نہ صرف گزشتہ کئی عشروں کے دوران کی جانے والی کوششیں بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی بلکہ مختلف معاشروں میں پائی جانے والی عدم مساوات بھی بڑھ جائے گی۔‘‘
انٹونیو گوٹیرش نے مزید کہا کہ جب مقامی سطح پر کووِڈ انیس کی وبا پر قابو پا لیا جائے، تو ہر معاشرے میں بچوں کو جلد از جلد واپس تعلیمی اداروں میں بھیجنا قومی اور مقامی حکومتوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
عالمی سطح پر نئی نسل کی مناسب تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک ارب سے زائد بچوں کی پڑھائی تو معطل ہو ہی چکی ہے، لیکن اس عالمی وبا سے پہلے تقریباﹰ 25 کروڑ بچے ایسے بھی تھے، جنہیں اسکولوں میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، مگر وہ اسکول جا ہی نہیں رہے تھے۔
م م / ش ج (اے پی، روئٹرز)
پڑھائی میں دل لگانے کے بہترین نسخے
دنیا بھر میں طالب علموں پر تعلیم کا دباؤ ہمیشہ سے رہا ہے لیکن کئی بار کتاب کھولنے کے باوجود ان کے لیے پڑھائی پر توجہ مرکز رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دماغ کو بیدار اور چوکس رکھنے کے لیے یہ طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
کھڑے ہو جانا
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جسم سستی کا شکار ہونے لگتا ہے، جس کا اثر دماغ پر پڑتا ہے۔ امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق لیکچر کے دوران وقفے وقفے کے ساتھ کھڑے ہونے والے طالب علم زیادہ توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔
تصویر: Imago/Jochen Tack
ذمے داری
اکثر طالب علم باقی سارے کام تو ذمے داری کے ساتھ کرتے ہیں لیکن تعلیم کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے۔ باقی کاموں کی طرح ہی تعلیم کو بھی ایک ذمے داری سمجھ کر حاصل کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کی استعداد میں بہتری آئے گی۔
تصویر: BlueOrange Studio/Fotolia
غذائیت سے بھری خوراک
محققین کے مطابق صحت مند دماغ کے لیے وٹامن اور معدنیات بہت ضروری ہیں۔ ساتھ ہی پانی پینا بھی بہت ضروری ہے۔ کئی ممالک میں سیب کو طالب علموں کے لیے بہت اچھا پھل سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Colourbox/6PA/MAXPPP
یہ ضرور کھائیں
اگر آپ اپنے دماغ کو بہترین رکھنا چاہتے ہیں تو اخروٹ، بادام، سبزیاں، ٹماٹر اور پھل ضرور کھائیں۔ مچھلی اور چائے بھی ذہن کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فاسٹ فوڈ سے دوری
آج کل کی تیز رفتار زندگی میں زیادہ تر نوجوانوں کی مرغوب غذا فاسٹ فوڈ ہوتی ہے، جس کی اچھی خاصی مقدار کھانے کے بعد وہ کولڈ ڈرنک بھی ضرور پیتے ہیں۔ جن سے پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن دماغ اور جسم کے لیے ضروری غذائیت نہیں ملتی۔
تصویر: Fotolia/Silverego
ذرا آرام دیں
فیس بک یا واٹس اپ پر بہت زیادہ وقت خرچ کرنے کی بجائے موسیقی سننا، دوستوں کے ساتھ مل کر گپ شپ کرنا یا ٹہلنے چلے جانا زیادہ اچھی اور صحت بخش مصروفیات ہیں۔ اس سے دماغ کو آرام اور سکون ملتا ہے۔
تصویر: colourbox
ورزش
سائنسدانوں کے مطابق ورزش بھی دماغ کو ہلکا پھلکا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دَس منٹ سے زیادہ جسمانی مشقت کرنے پر کئی ایسے ہارمون نکلتے ہیں جو فیصلہ سازی کے عمل میں مدد دیتے ہیں۔