1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتایشیا

افغان پناہ گزین: ’پاکستان اپنی فراخدلی کا مظاہرہ جاری رکھے‘

4 اکتوبر 2023

تارکین وطن سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور دباؤ کے بغیر ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے تقریبا دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان میں افغان پناہ گزین
اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 13 لاکھ افغان رجسٹرڈ مہاجرین کی حیثیت سے پاکستان میں رہتے ہیں، جب کہ مزید 880,000 کو پاکستان میں رہنے کی قانونی حیثیت حاصل ہےتصویر: Reuters/F. Aziz

اقوام متحدہ نے ملک سے 10 لاکھ سے زیادہ "غیر قانونی تارکین وطن" کو نکالنے کے لیے وقت مقرر کرنے سے متعلق پاکستانی منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے۔

24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے، پاکستان

واضح رہے کہ پاکستان نے منگل کے روز ہی تمام "غیر قانونی تارکین وطن" کو یکم نومبر تک ملک سے نکل جانے کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جلاوطن افغان ویمن فٹ بال ٹیم کھیل میں واپسی کے لیے بے تاب

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے ہائی کمشنر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو سے بات چیت میں کہا کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ جو افراد حفاظت کے خواہاں ہیں، ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

افغان پناہ گزین کا بھارت میں احتجاج کیوں؟

آفریدی نے مزید کہا، "ہم نے دستاویزات نہ رکھنے والے افغانوں کے ملک بدر کرنے سے متعلق منصوبے کے بارے میں پریشان کن پریس رپورٹس دیکھی ہیں اور ہم اس بارے میں اپنے حکومتی شراکت داروں سے وضاحت بھی طلب کر رہے ہیں۔"

افغانستان: تین پناہ گزینوں کی ہلاکت پر ایران کی مذمت

انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ حکومت کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرے کہ جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جو افغان بین الاقوامی تحفظ کے حامل ہیں، انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان گزشتہ 40 برس سے بھی زائد عرصے سے افغان پناہ گزینوں کی فراخدلی سے میزبانی کرتا رہا ہے۔

پناہ گزینوں کی میزبان کرنے کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا ہے، تاہم اسے اس فراخدلی کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہےتصویر: Reuters/F. Aziz

اقوام متحدہ 'پاکستان کی مدد کو تیار' ہے 

قیصر خان آفریدی کا کہنا تھا، "ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ظلم و ستم کا شکار ہونے کے بعد مجبوری میں ملک چھوڑنے والوں کے پاس اکثر ضروری دستاویزات اور سفری اجازت نامے نہیں ہوتے۔"

پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا: گوٹیریش

انہوں نے کہا کہ یو این ایچ سی آر پاکستان میں مقیم بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت والے لوگوں کو منظم کرنے اور انہیں رجسٹر کرنے نیز "خاص خطرات" سے نمٹنے میں مدد کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے میں پاکستان کی مدد کے لیے بھی تیار ہے۔

ان کا  مزید کہنا تھا کہ "پناہ گزینوں کی میزبان کرنے کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا ہے، تاہم اسے اس فراخدلی کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔"

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 13 لاکھ افغان رجسٹرڈ مہاجرین کی حیثیت سے پاکستان میں رہتے ہیں، جب کہ مزید 880,000 کو پاکستان میں رہنے کی قانونی حیثیت حاصل ہے۔

پاکستان میں پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر کے اوائل سے صرف کراچی میں کم از کم 700 افغانوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر شہروں میں بھی سینکڑوں افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

پاکستان کا منصوبہ کیا ہے؟

پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے منگل کے روز غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرنے کا اعلان کیا۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 1.73 ملین افغان شہریوں کے پاس کوئی قانونی رہائشی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے مہینوں میں سب مہاجرین کو افغانستان واپس جانا پڑے گا۔ اے پی پی نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ''حکومت چاہتی ہے کہ تمام افغان پاکستان سے واپس چلے جائیں۔ پہلے مرحلے میں غیر قانونی مقیم افراد، دوسرے مرحلے میں افغان شہریت کے حامل افراد اور تیسرے مرحلے میں رہائشی کارڈ کے ثبوت فراہم کرنے والے افراد کو نکال باہر کیا جائے گا۔"

پاکستان اور طالبان کی کشیدگی: قیمت افغان مہاجرین چکا رہے ہیں

05:12

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں