1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم شام جائے گی

19 اگست 2011

اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے اعلیٰ اہلکار Valerie Amos نے تصدیق کی ہے کہ ہفتے کے دن ایک خصوصی ٹیم شام کا دورہ کرے گی تاکہ وہاں کی صورتحال کا بغور مشاہدہ کیا جا سکے۔

شامی صدر بشار الاسدتصویر: picture alliance/dpa

Valerie Amos نے بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اقوام متحدہ کی یہ ٹیم شام میں جہاں چاہے جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ خصوصی ٹیم شام کے ان علاقوں میں جائے گی، جہاں لڑائی اور تشدد کے واقعات رونما ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ شام میں غیر ملکی صحافیوں کی آمد پر پابندی ہے، اس لیے وہاں سے موصول ہونی والی خبروں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کی یہ خصوصی ٹیم وہاں کے زمینی حقائق جاننے کی کوشش کرے گی۔

دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ الاسد کی حکومت پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے کے شبے میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

شام میں حکومت مخالف مظاہرین پرسکیورٹی فورسز کی خونی کارروائیوں کے تناظر میں جمعرات کو امریکی صدر باراک اوباما نے مطالبہ کیا کہ شامی صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ اسی کے ساتھ ہی واشنگٹن حکومت نے دمشق حکومت کے اثاثے منجمد کرنے اور شام سے مزید کوئی تیل درآمد نہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔

شام میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران کم ازکم دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: AP

امریکی صدر اوباما نے کہا،’ ہم نے متعدد بار کہا ہے کہ صدر بشار الاسد منتقلی اقتدار کی راہ ہموار کریں یا پھر اقتدار چھوڑ دیں۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ شامی عوام کی خاطر بشار الاسد صدرات کے عہدے سے الگ ہو جائیں‘۔

شام میں گزشتہ پانچ ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں اور اس پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد اب امریکہ نے پہلی مرتبہ کھلے الفاظ میں شامی صدر کو اقتدار سے الگ ہونے کے لیے کہا ہے۔ اس کے فوری بعد ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی مشترکہ طور پر یہی مطالبہ کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران کم ازکم دو ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

اگرچہ بدھ کو شامی صدر بشار الاسد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو یقین دہانی کروائی کہ مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائیاں روک دی گئی ہیں تاہم اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ جمعرات کے دن ہی شامی سکیورٹی فورسز نے کم ازکم 26 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک 13 سالہ لڑکا پولیس کی حراست میں مارا گیا ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ الاسد کی حکومت پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے کے شبے میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہےتصویر: picture alliance/dpa

دریں اثناء اقوام متحدہ کے خصوصی معائنہ کاروں نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ عالمی ادارے کے پاس ایسے شواہد ہیں کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ عالمی فوجداری عداالت ICC میں مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ کے پاس پچاس مشتبہ افراد کے خلاف ثبوت ہیں۔

شام کی صورتحال کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کیے گئے خصوصی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر بشار الاسد نے حکومت مخالف پر امن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا اور نہتے مظاہرین پر گولیاں برسانے سے بھی گریز نہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق مظاہروں کو کچلنے کے لیے ٹینک، گرینیڈ، ماہر نشانہ باز اور بھاری اسلحہ کا استعمال بھی کیا گیا۔ کمیشن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تجویز کیا ہے کہ اس بارے میں مزید حقائق جاننے کے لیے عالمی فوجداری عدالت میں یہ معاملہ لے جایا جاناچاہیے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں