1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کی ماحولیاتی مذاکرت اختتام کے قریب، مالیاتی ڈیل کا امکان صفر

6 دسمبر 2012

زمین کے گرم ہوتے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے ایک اور اقوام متحدہ کی کانفرنس اپنی منزل کو پہنچنے والی ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں شروع ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کا کل آخری دن ہے۔

تصویر: AP

خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو سو ملکوں کے مندوبین اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک ہیں۔ یہ کانفرنس کل جمعے کے روز ختم ہو رہی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء  غریب اقوام کی مالی معاونت کے معاملے پر بدستور منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی دوحہ کانفرنس کے شرکاء سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے ماحول دوستی کا ثبوت دیں اور معاملات کو آگے بڑھائیں۔

دوحہ میں ماحولیاتی کانفرنس چھ دسمبر کو ختم ہو گیتصویر: picture-alliance/dpa

 ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے کسی پیکج پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے یا نہیں۔ جمعرات کے روز یورپی یونین اور امریکا نے سن 2013 سے لیکر سن 2020  تک غریب ملکوں کے لیے ٹھوس مالی کمٹمنٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔ بعض ملکوں کی جانب سے انفرادی سطح پر مالی امداد کے وعدے ضرور سامنے آنے لگے ہیں۔ دوحہ میں ترقی یافتہ اقوام کو اس سوال کا بھی سامنا ہے کہ سن 2020 تک  وہ کس طرح غریب اقوام کے لیے فنڈز مہیا کریں گے۔

یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا کہ سخت مالیاتی صورت حال کی وجہ سے وہ کوئی وعدہ پیش کرنے سے قاصر ہے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اس مد میں طے شدہ اہداف کے مطابق بہت کچھ کر رہا ہے۔ یورپ میں مالیاتی بحران کی وجہ سے کئی ممالک کو مالیاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق یونین کے رکن ملکوں میں پائی جانے والی مالیاتی مشکلات کے ساتھ ساتھ یونین کو بھی اگلے سات سالوں کے بجٹ پر رکن ملکوں کی تنقید کا سامنا ہے۔

دوحہ ماحولیاتی کانفرنس میں دو سو اقوام کے نمائندے شریک ہیںتصویر: DW/Rönsberg

موسمیاتی تبدیلیوں کے  سنگین اثرات کے تناظر میں غریب  ملکوں کا خیال ہے کہ ان  اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں سن 2015  تک مجموعی طور پر 60 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور ابھی تک کسی امیر یا ترقی یافتہ ملک کی جانب سے اس رقم کی فراہمی کے آثار سامنے نہیں آئے ہیں۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ صنعتی اور ترقی یافتہ اقوام کی جانب سے یہ وعدہ سامنے آ چکا ہے کہ وہ سن 2020ء تک غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سو ارب یورو فراہم کریں گے لیکن اس ضمن میں بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

 قطر میں جاری مذاکرات میں کیوٹو پروٹوکول کی میعاد کو بڑھانا بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے۔ ماحولیات سے متعلق اس معاہدے کی عمر اسی ماہ کی 31 تاریخ کو پوری ہو رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج پر کنٹرول سے متعلق کیوٹو پروٹوکول واحد ایگریمنٹ ہے، جس پر غریب اور امیر اقوام رضامند ہوئیں تھیں۔ کیوٹو پروٹوکول کے تحت ترقی یافتہ اور صنعتی اقوام پابند ہیں کہ وہ ماحول کے نقصان پہنچانے والی گیسوں کو کنٹرول کریں۔ امریکا نے اس ایگریمنٹ کی توثیق نہیں کی ہے۔

(ah / ia (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں