اقوام متحدہ کے اہلکار کو سری لنکا چھوڑنے کا حکم
6 ستمبر 2009جیمز ایلڈر تامل باغیوں کے خلاف ملکی فوج کی کارروائیوں سے متعلق مسلسل بیانات دیتے رہے ہیں۔ ابتداء میں ان کا ویزا پیر سات ستمبر سے منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر ملک چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔ تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے مزید وقت کی درخواست پر اب ان کے ویزے کی مدت 21 ستمبر تک بڑھا دی گئی ہے۔
یونیسیف نے اتوار کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایلڈر کے ویزے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سری لنکا کے کنٹرولر آف امیگریشن ابےکرون نے خبر ایجنسی AFP کو بتایا کہ ایلڈر کی ملک بدری کا فیصلہ چند مہینے پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔ ابے کرون نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
جیمز ایلڈر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنے بہت سے انٹرویوز میں سری لنکا میں خانہ جنگی اور ملکی فوج کی تامل باغیوں کے خلاف مسلح کارروائیوں کے نوجوانوں پر اثرات کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔
جنگ کے خاتمے سےقبل جیمز ایلڈر نے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو ایسی جہنم قرار دیا تھا جو ناقابل تصور ہو۔ انہوں نے متاثرین کی مدد کے لئے فلاحی اداروں پر عائد پابندیاں اٹھانے کے لئے بھی حکومت پر زور دیا تھا۔ تب جنگ کے ہزاروں متاثرین سرکاری کیمپوں میں محاصرے کی حالت میں مقیم تھے۔
جنوبی ایشیا میں یونیسیف کے شعبہ کمیونیکیشن کی سربراہ سارہ کرو نے نئی دہلی میں اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ جیمز ایلڈر سری لنکا میں پسے ہوئے لوگوں اور مجبور بچوں کی آواز بنے رہے ہیں، اور یہ آواز سنائی دیتی رہنی چاہئے۔
خود جیمز ایلڈر نے اپنی ملک بدری کے حکم سے متعلق کوئی بیان دینے سے انکار کیا ہے۔ وہ آسٹریلوی شہری ہیں اور یونیسیف کے ترجمان کی حیثیت سے گزشتہ برس جولائی سے سری لنکا میں تعینات ہیں۔ معمول کے مطابق ان کے رہائشی ویزے کی مدت 2010 میں ختم ہونا تھی۔
سری لنکا میں ملکی فوج نے رواں برس مئی میں تامل باغیوں کو کئی ہفتے جاری رہنے والے شدید آپریشن کے نتیجے میں حتمی شکست دے دی تھی۔ تامل ٹائیگرز کہلانے والے باغیوں کے رہنما ویلوپلائی پربھاکرن کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 1972 سے جاری اس لڑائی میں ہزار ہا افراد ہلاک ہوئے۔
سری لنکا کے شمال مشرقی علاقوں میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں کولمبو حکومت نے ذرائع ابلاغ پر سخت کنٹرول رکھا۔ صحافیوں کو جنگی علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی اور اس حوالے سے غیر ملکی صحافیوں کی سری لنکا آمد کے لئے بس چند ہی ویزے جاری کئے گئے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک