اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیرش چار روزہ دورے پر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ اپنے اس دورے کے دوران وہ افغان مہاجرین کی ایک کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔
اشتہار
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے اس دورے کے دوران شورش زدہ مقامات پر امن دستوں کی تعیناتی میں پاکستان کے کردار اور مہاجرین کی صورت حال مرکزی معاملات رہیں گے۔ اس دوران وہ پاکستانی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ماحولیات اور پاکستان میں پائیدار معاشی و سماجی ترقی جیسے معاملات پر بھی اعلیٰ حکام اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بات چیت کریں گے۔
انتونیو گوٹیرش نے اپنے دورے سے قبل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ''پاکستان دنیا بھر میں قیام امن کی کوششوں کے لیے سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور مستقل کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔‘‘ گوٹیرش نے مزید لکھا، ''میں پاکستان جا رہا ہوں جہاں میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستانی لوگوں کے کردار پر اظہار تشکر کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
گوٹیرش افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے چالیس برس مکمل ہونے کے موقع پر منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے۔ اس بین الاقوامی کانفرنس کا انتظام حکومتِ پاکستان اور اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے نے مشترکہ طور کیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی اس کانفرنس میں شرکت '' گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی میں پاکستان کی مثالی ہمدردی، سخاوت اور عزم کے علاوہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ہماری کوششوں کا اعتراف ہے۔‘‘
پاکستان اس وقت دنیا بھر میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد میں سے ایک کی میزبانی کر رہا ہے جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان افغان مہاجرین نے1979 میں افغانستان پر سوویت حملے اور اس کے بعد کے بحرانوں کے دوران پاکستان میں پناہ لی تھی۔
پاکستان کئی مرتبہ افغان مہاجرین کی واپسی کا اعلان کر چکا ہے تاہم اس سلسلے میں مقرر کی جانے والی ڈیڈ لائن میں توسیع ہوتی رہی ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔