اقوام متحدہ ہزاریہ اہداف اور پاکستان میں خواتین کے حقوق
12 فروری 2009نئی صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ کی میلینیئم سمٹ میں 2015 تک دنیا کو آٹھ بڑے مسائل سے نجات دلانےکے لئے اہداف مقرر کئے گئے تھےجنہیں ہزاریہ اہداف یا میلینیئم گولز کا نام دیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آٹھ میلینئم گولز میں سے ایک ہدف 2015 تک دنیا میں خواتین کو بھی مردوں کے برابرحقوق، سہولیات، تعلیم اور ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن آج سال دوہزار نو میں جب ہم یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے حاصل شدہ وقت کا زیادہ حصہ ہم گزار چکے ہیں پاکستان کے صوبہ سرحد میں خواتین اس حوالے سے انہتائی دگرگوں حالت کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
پشاور کے جدید علاقہ نوتھیہ میں واقع گرلز پرائمر ی سکول میں سینکڑوں بچیاں ہرصبح کاآغاز اس دعا "ہو میرے دم سے میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت" سے کرتی ہیں اور جہاں سینکڑوں مائیں اپنی بچیاں اس امید سے سکول بھیجتی ہیں کہ پڑھ لکھ کر یہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردارادا کریں گی۔ ان بچیوں کو سرکاری سکولوں میں تمام ترسہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بہ مشکل 70میں سے 30 بچیاں پانچویں کلاس تک پہنچ پاتی ہیں اوران کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانے کافیصلہ ان کا قد دیکھ کر کیا جاتاہے۔ پانچویں کلاس تک پہنچنے سے قبل زیادہ تر لڑکیوں کو گھر کی چاردیواری تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ ختم کرنے سے لے کران کی شادی تک کا فیصلہ والد کرتا ہے جب کہ شادی کے بعد انہیں شوہر کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ ڈوئچے ویلے نےایک ایسی استانی سے بات کی جنہوں نے ایسے تمام فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی اور بعد میں بچیوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے میں اپنا کردارادا کرنے کافیصلہ کیا۔ سکول ٹیچر ذکیہ رحمان اس سلسلے میں درپیش اپنی مشکلات یوں بیان کرتی ہیں’’اگرکسی لڑکی کے والدین تعلیم یافتہ ہوں اور وہ تعلیم کے بعد ملازمت کرناچاہے توبھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اکثر شادی کے بعد سسرال والے اجازت نہیں دیتے۔ میں کئی لڑکیوں کو جانتی ہوں جومیڈیکل گریجویٹ ہیں لیکن گھربیٹھ جاتی ہیں ملازمت کرنے والی لڑکیوں کوطرح طرح کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدم تحفظ بھی ہے۔ وارثت کے قانون میں 2 خواتین ایک مرد کے برابر ہیں والدین بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے۔ جو لوگ خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں ان کے گھروں کا بھی یہی حال ہے۔ مردوں کے ساتھ برابری کا تصور بھی نہیں۔ ہمارا قبائلی نظام صدیوں سے چلا آرہا ہے لڑکی خوا ہ کتنی ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں انہیں مردوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مردوں کی طرح فیصلے کرنا شاید یہ وقت اگلے سو سال میں بھی نہیں آئے گا۔‘‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبہ سرحد کی آبادی 1998ء میں دو کروڑ سے زیادہ تھی اس آباد ی میں48 فیصد خواتین تھیں۔ 48 فیصد آبادی کے لئے ملک وقوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ نصف کے قریب یہ آبادی گھریلوذمہ داریوں میں لگ جاتی ہیں پختون معاشرے میں آج بھی خواتین کی تعلیم اورملازمت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ روشن خیال والدین بھی اپنی بچیوں کو طب اور درس وتدریس کے شعبوں تک محدود رکھنے پرمجبورنظرآتے ہیں۔ تعلیم کے حق سمیت خواتین کووارثت میں حصہ دینے والوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابرہے اوربیٹی اوربہنوں کی شادی پراٹھنے والے اخراجات کو ہی ان کا حصہ مانا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ ایاز کہتی ہیں: ’’ جہاں بھی قبائلی رسم ورواج ہوتے ہیں وہاں عورتوں کے حقوق کی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں ہوتی اورصوبہ سرحد میں تو صورت حال دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہے۔ سرحداورقبائلی علاقوں میں خواتین کے لئے بے پناہ مسائل ہیں۔ ہم پہلے بی پیچھے تھے اوراب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید پیچھے جارہے ہیں سوات میں لڑکیوں کے سکول بالکل بند کردیئے گئے ہیں۔ صحت کی صورتحال دیکھیں خواتین ورکر کام نہیں کرسکتیں کونسلر بنائے گئے لیکن ریاست اس سسٹم کو بھی ختم کررہی ہے۔ ان کونسلرزاورمنتخب ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی کم کی جارہی ہے انفرادی طورپر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ مرد اورعورتوں کے حقوق کو یکساں تحفظ فراہم کرے۔ غیرت کے نام پرقتل کا بل اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ جرم قابل ضمانت ہے اگر چچا بھتیجی کو مارتا ہے تو لڑکی کا باپ اپنے بھائی کومعاف کردیتا ہے اورپھردوسرے بھی معاف کردیتے ہیں ہمارامطالبہ یہی ہے کہ حدود آرڈنینس اورغیرت کے نام پر کئے جانے قتل کے حوالے سے بل میں ترامیم لائی جائیں۔ گزشتہ د س سالوں میں تبدیلی آتی رہی لیکن اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم جب دوقدم آگے چلتے ہیں تو ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں تو خواتین بہت زیادہ پیچھے چلی گئیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت قانون سازی میں خواتین کو ساتھ لے کرنہیں چلتی مسائل میں اسی طرح اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ قبائلی خواتین کو میلوں دورسے پانی لانے، جلانے کے لئے لکڑی اورکھیتوں میں کام کرنے کی اجازت تو ہے لیکن اس معاشرے میں سکول جانا باعث توہین سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی پختون معاشرے میں دوخاندانوں کے مابین دشمنی ختم کرنے کے لئے بیٹی اوربہن سورہ کے طورپر بیاہنے کا رواج موجود ہے۔ مہمند ایجنسی ہویا مالاکنڈ ڈویژن۔ خواتین کو محض اس لیے سزائیں دی جاتی ہیں کہ انہوں نے روزمرہ کی ضروریات کی خاطر گھر کی دہلیز پارکی۔ ملاکنڈ میں 1994 ء سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن جہاں خواتین کے گھروں سے باہرنکلنے پرپابندی عائد کر دی گئی ہے وہاں بچیوں کے 120سکول تباہ کیے جا چکے ہیں اورچند روزقبل خواتین کی تعلیم پرپابندی کا حکم جاری کردیا گیا۔ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے کبھی قرآن کی روشنی میں خواتین کی تعلیم، برابری اور وارثت میں حصے کی بات نہیں کرتے بلکہ بعض جید علماء، سیاستدان، وکلاء، جاگیرداراورمعاشرے کے با اثر افراد ہی بیٹیوں اوربہنوں کے شرعی اورمعاشرتی حقوق کی راہ میں رکا وٹ ہیں۔ حالانکہ اسلامی اورپاکسانی قوانین نے خواتین کو وہ تمام حقوق دیئے ہیں جو انہیں معاشرے میں فعال کردارادا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پختون معاشرے کے بعض رسموں کو بڑھاوا دے کر اسے اسلامی اورپاکستانی قوانین پرعمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین اورمعروف قانون دان نورعالم خان ایڈوکیٹ کے مطابق معاشرے میں تب تک انصاف کا بول بالا نہیں ہوسکتا جب تک تمام شہری قانون کی نظر میں یکساں نہ ہوں یہاں زیاد ہ تر لوگ خواتین کے مسائل کو ایشوز کہہ کر ان کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ خواتین کو سب سے زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے یہاں ماسٹر ڈگری لینے والی خواتین بھی معاشرے کی تبدیلی میں اپنا کردارادا نہیں کرسکتیں۔ عورت کو کمزورسمجھا جاتا ہے اورانہیں ان کا اپنا حق نہیں دیا جاتا ہے۔‘‘
پختون معاشرے میں حالات سے متاثر ہونے والی خواتین کے مسائل پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین بے گھر ہوئیں باجوڑ، وزیرستان اورمہمند ایجنسی سے بے گھر ہوکر پشاور کے مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر خواتین بے پناہ مسائل کا سامنا کررہی ہے اس جنگ کے دوران ان کے بیٹے، بھائی، شوہریا والد بمباری کی نذرہوچکے ہیں اس پر وہ گھر بارچھوڑ کر کھلے آسمان تلے رہنے کی مجبوری نے انہیں متعدد مسائل سے دوچارکر رکھا ہے لیکن امدادی اداروں کوخواتین کے مسائل کی کوئی فکر نہیں۔ ان پریشانیوں نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ کچہ گڑھی کیمپ کا دورہ کرنے والی ہیلتھ ٹیم کی ڈاکٹرمریم اورعملے کی دیگر خواتین کا کہنا ہے کہ زیادہ ترخواتین کوہائی بلڈ پریشر ہے اور اس کی وجہ اپنوں سے جدائی اورگھربار چھوڑنا ہے ان خواتین میں اکثریت کے شوہر، بھائی، والد یا قریبی رشتہ دار جنگ کی نذر ہوچکے ہیں اورگھر سے میلوں دور اس ویرانے میں رہائش اورمسائل کی بھرمار نے انہیں شدید ذہنی دباؤ سے دوچار کررکھاہے۔‘‘