اقوا متحدہ کی جنرل اسملبی سے جرمن وزیر خارجہ کا خطاب
27 ستمبر 2011جرمن وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ صدر بشار الاسد پر دباؤ بڑھائے تاکہ شام میں جاری قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو سکے۔ ویسٹر ویلے نے افغانستان اور ایران کے حالات کے علاوہ عرب ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر مختلف وفود سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے نیویارک میں اپنے قیام کے دوران کوئی چھوٹی بڑی پچاس مختلف تقریبات میں شرکت کی۔ ان میں سے زیادہ تر میں مشرق وسطٰی کے موضوع کو ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ ان کے بقول نیویارک میں سخت الفاظ کے تبادلے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مشرق وسطٰی میں تشدد کا آغاز ہوجائے۔ فریقین نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں امن کے قیام کی وکالت ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی توانائی کو ایک مثبت عمل میں تبدیل کیا جائے۔
ویسٹر ویلے کا خطاب بیس منٹ تک جاری رہا۔ اس خطاب میں کوئی نئی بات نہیں تھی جبکہ نیویارک کے اسٹیج پر دیگر رہنما بازی لے گئے۔ مشرق وسطٰی تنازعے کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما، فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے خطاب کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ ویسٹر ویلے نے فلسطنیوں کے مطالبے اور اسرائیلی مؤقف کو جائز قرار دیا۔ ’’جرمنی دو ریاستی حل کا حامی ہے۔ ہم ایک ایسی فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں، جہاں آزادی ہو اور فلسطینی خود مختار انداز میں اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ ساتھ ہی جرمن کے لیے اسرائیل کی سلامتی بھی بہت اہم ہے‘‘۔
تاہم اس موقع پر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب اقوام متحدہ میں ایک الگ فلسطینی ریاست کے قیام کی درخواست پر فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا تو ان کی کیا حکمت عملی ہو گی۔ شام کے معاملے میں ویسٹر ویلے نے سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ شام کی حکومت نے عوام کے جائز مطالبے کا جواب تشدد سے دیا۔ جرمنی دمشق حکومت کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرنے کی حمایت کرتا رہے گا۔ یہ صرف شامی عوام سے یکجہتی کا اظہار نہیں ہے، یہ عالمی برادری کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے۔
بہرحال بین الاقوامی سیاست میں مصروف رہنے کے بعد جرمنی میں ویسٹر ویلے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وطن واپس پہنچنے کے بعد سب سے پہلے انہیں اپنی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کی مشکلات کو حل کرنا ہے اور پھر یورو کرنسی کو لاحق خطرہ بھی ان کا منتظر ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : حماد کیانی