الاسکا: گرمی کی شدت، برفانی ریچھ کو بھی پسینہ آ جائے
30 مارچ 2019
امریکی ریاست الاسکا کے متعدد شہروں میں ریکارڈ درجہ حرارت ماپا گیا ہے۔ اس غیرمعمولی گرمی سے نہ صرف انسان بلکہ فطرت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/S. Muller
اشتہار
موسم سرما کے اختتام پر قطبی امریکی ریاست الاسکا کو ریکارڈ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ الاسکا میں واقع ماحولیاتی مرکز سے وابستہ ماہر ماحولیات ریک تھامن نے بتایا ہے کہ الاسکا کے شمالی مقامات پر درجہ حرارت میں بیس سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جو کہ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ الاسکا کے شمالی ساحلی شہر بارو میں گزشتہ جمعرات کے دن درجہ حرارت منفی ایک سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ اس موسم میں اس علاقے کا درجہ حرارت عموماﹰ منفی بیس سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔
اس امریکی ریاست میں پہلے کبھی بھی اس قدر گرم درجہ حرارت ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ چند روز میں اس خطے میں گرمی کی لہر مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجوہات گرم موسم اور زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/S. Rebored
الاسکا میں ہر سال ’سلیڈ ڈاگ ریسنگ‘ کے متعدد ٹورنامنٹ منعقد کروائے جاتے ہیں۔ لیکن برف کی کمی کی وجہ سے کتوں کی دوڑ کی ایسی تمام تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اس سے بڑا مسئلہ الاسکا میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو درپیش ہے۔ الاسکا کے دریاؤں پر جمی برف پتلی ہو چکی ہے اور اب ان دریاؤں پر جمی برف کو بطور سڑک استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ الاسکا کے متعدد شہروں کو صرف ایسی سڑکیں ہی ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔ ان شہروں تک ضروریات زندگی کا سامان دریاؤں پر بنی انہی برفیلی سڑکوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس گرمی کی وجہ سے سگ ماہی کی نسل کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ سگا ماہی کے بچوں کی پیدائش برف اور ٹھنڈے موسم میں ہوتی ہے۔
ا ا / آ ع (اے ایف پی)
قطب شمالی میں جہاز رانی کے دس برس
قطب شمالی کی برف پگھلنے سے جہاز رانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس باعث نئے سمندری راستے بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم اس پیشرفت سے اس علاقے کی جنگلی حیات کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Goldmann
اسے جما ہوا سمندر رہنے دیں
دس برس قبل سائنسی تحقیق کے سلسلے میں ریسرچرز نے برف کا سینہ کاٹتے ہوئے مہم جوئی کی تھی۔ یہ انتیس اگست سن 2008 کا واقعہ تھا۔ محققین کی یہ کوشش سمندری سفر کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ اندازہ لگایا گیا کہ مال بردار جہاز بھی برفانی سمندر کے شمال مشرقی سمت سے شمال مغرب کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ یہ سفر موسم گرما میں ہی ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/Okapia/H. Kanus
بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل کا شارٹ کٹ
مال بردار بحری جہازوں کا شمال مشرقی راستہ ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر طویل ہے اور یہ طے کرنے کے بعد وہ بحر الکاہل میں داخل ہوتے ہیں۔ برف نہ ہونے کی صورت میں آبنائے بیرنگ اور قطب شمالی دونوں آبی سمندروں کو کم فاصلے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔
تصویر: DW
طویل سمندری گزرگاہ
ہالینڈ کے شہر راٹرڈیم سے ٹوکیو جانے کے لیے مال بردار بحری جہاز بھارت کے قریب سے گزرتے ہوئے نہر سویز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ شمالی مشرقی راستے کے مقابلے میں چھ ہزار کلومیٹر زائد ہے۔ اسی طرح امریکی مشرقی ساحلوں سے ایشیا کے لیے بحرالکاہل کا راستہ پاناما نہر سے گزرتا ہے۔ اگر شمال مغربی سمندری راستہ اپنایا جائے تو چار ہزار کلومیٹر مسافت کم ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Shaker
قطب شمالی کی مہم جوئی
سن 2009 میں جرمن شہری ریاست بریمن کی جہازراں کمپنی بیلُوگا نے دو جرمن بحری جہاز پہلی مرتبہ برفانی سمندری راستے کی کھوج پر روانہ کیے تھے۔ یہ شمال مشرقی راستے کی پہلی مہم تھی۔ اب اس گزرگاہ پر بحری جہازوں کی نقل و حمل بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ٹریفک سال کے اُن چند مہینوں ہی میں دیکھی جاتی ہے جب سمندرمنجمد نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Beluga Shipping
برف کے بغیر سمندر
کوئی بھی ماحولیاتی سائنسدان یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں قطب شمالی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سبھی کا اتفاق ہے کہ اگلے تیس سے پچاس برسوں میں قطب شمالی برف سے محروم ہو جائے گا لیکن یہ بھی حتمی نہیں ہے۔ صرف اندازہ ہے کہ اس برفانی خطے میں کھلا سمندر کبھی دستیاب ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Goldmann
سکون درہم برہم ہو سکتا ہے
ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ قطب شمالی میں بحری جہازوں کی نقل و حمل بڑھنے سے اس خطے کی جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شمال مشرقی سمندری گزرگاہ کے قرب و جوار میں برفانی براعظم کی اسّی فیصد جنگلی حیات رہتی ہے اور بحری جہازوں کی بڑھتی ٹریفک اس خطے کی حیات کے سکون کو درہم برہم کر دے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/McPHOTO
خاص رہائشی
حیاتیاتی سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحری جہازوں کی ٹریفک سے قطب شمالی کی قدرے چھوٹی جسامت کی خاص وہیل مچھلی ناپید ہو سکتی ہے۔ یہ مچھلی ایسے علاقے میں بستی ہے جو شمال مشرقی سمندری راستے کے ارد گرد کا برفانی علاقہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
قطب جنوبی بطور ایک نمونہ
ریسرچرز اور ماحول پسندوں کا مطالبہ ہے کہ قطب شمالی کی بحری گزرگاہ کے استعمال کے لیے رہنما اصولوں کا مرتب کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اس میں وہیل مچھلیوں کے علاقوں کو محفوظ رکھنا شامل ہے۔ ان بحری جہازوں کو گزرتے ہوئے شور کم کرنے کے ساتھ ساتھ رفتار کو بھی کنٹرول کرنا ہو گا۔ قطب شمالی کے لیے بھی وہی رہنما اصول سامنے رکھیں جائیں جو قطب جنوبی کے لیے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Meneghini
طوفان سے قبل خاموشی خطرناک تو نہیں
ماحول دوست تنظیم گرین پیس کا کہنا ہے کہ برفانی سمندر کے شمال مشرق سے شمال مغرب کی جانب سالانہ بنیاد پر اس وقت پچاس بحری جہاز گزرتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے خاموشی ہے اور کوئی ضوابط پر بات نہیں کرتا۔ یہ ایک خطرناک صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔